الوقت - حالیہ ہفتوں کے دوران افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے لئے عالمی کوششوں کا نیا مرحلہ شروع ہی ہوا تھا کہ گزشتہ دنوں کابل اور قندہار میں ہونے والے شدید دھماکوں نے یہ واضح کر دیا کہ افغانستان کی صورتحال کو معمول پر آنے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔ کابل حملوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی جس میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔
کابل میں ہونے والا حملہ خودکش حملہ تھا جو طالبان کی جانب سے انجام دیا گیا اس حملے میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔اس دھماکے کے تھوڑی ہی دیر بعد دوسرا دھماکہ ہوا۔ کابل دھماکے کے کچھ ہی گھنٹے بعد قندہار میں اس شہر کے گونر کے گیسٹ ہاوس میں شدید دھماکہ ہوا جس میں پانچ افراد ہلاک اور 12 ديگر زخمی ہوئے۔ اگر چہ قندہار دھماکے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی ہے تاہم دھماکے کی شدت سے اندازہ ہوتا ہے کہ دھماکے میں طالبان ملوث ہيں۔
پہلا انکشاف : کابل میں دھماکہ
بتایا جاتا ہے کہ دو خودکش بمبار نے کابل میں افغان پارلیمنٹ کے نزدیک خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں 22 افراد ہلاک ہوئے جن میں عام شہری اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔ افغانستان کی وزارت صحت نے دھماکوں میں 30 افراد کی ہلاکت اور 63 سے 78 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع دی تھی۔
کابل پولیس سربراہ عبد الرحمن رحیمی کے مطابق، پہلے خودکش بمبار نے خود پیدل پارلیمنٹ کے نزدیک پہنچایا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا، اس کے تھوڑی دیر بعد سڑک کی دوسری جانب کھڑی کار بم میں دھماکہ ہوگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر مینی بس کے مسافر تھے جو پارلیمنٹ سے نکل بس میں سوار ہو رہے تھے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا کہ حملے کا نشانہ، افغان نیشنل سیکورٹی ادارے کے اہلکاروں کو منتقل کرنے والی بس تھی۔ ان کا دعوی تھا کہ یہ افراد بھی اسی بس میں سوار تھے جس پر پارلیمنٹ کے ملازمین سوار تھے۔
دوسرا انکشاف : قندہار میں حملہ
کابل دھماکے کے تھوڑی ہی دیر بعد یہ خبر موصول ہوئی کہ قندہار کے گونر کے گیسٹ ہاوس میں دہشت گردانہ حملہ ہوا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق قندہار صوبے کے گورنر کے ترجمان صمیم خپلواک نے کہا کہ قندہار گورنر کے گیسٹ ہاوس میں ہونے والے دو شدید بم دھماکوں میں 5 افراد ہلاک اور 12 دیگر زخمی ہوگئے۔
قندہار گورنر کے ترجمان کے مطابق، قندہار کے گورنر ہمایوں عزیزی اور افغانستان میں متحدہ عرب امارات کے سفیر جمعہ عبد اللہ الکعبی ان دھمکوں میں زخمی ہونے والے افراد میں شامل ہیں۔ کچھ رپورٹوں میں ان دھماکوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 14 بتائی گئی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ دھماکہ مقامی وقت کے مطابق 7 بجے شام کو ہوا جب قندہار کے گورنر اپنے مہمانوں کے ساتھ عشائیہ تناول فرما رہے تھے۔
افغانستان کی بدتر سیکورٹی :
جرمن خبر رساں ایجنسی ڈويچے ویلے نے اپنی رپورٹ میں اشارہ کیا ہے کہ موسم سرما کے نزدیک آتے ہی طالبان نے سے اپنے حملے تیز کر یئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ افغان پارلیمنٹ کے نزدیک ہونے والے دھماکے سے کچھ گھنٹہ پہلے ہلمند صوبے کے مرکز لشکر گاہ میں بھی خودکش حملہ ہوا تھا جس میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔ افغانستان میں طالبان کے مسلسل حملوں سے اس ملک کی بدتر سیکورٹی کا پتا چلتا ہے۔ نیٹو نے 2014 میں اپنی اسپیشل فورس افغانستان سے نکال لی تھی لیکن چند ہزار امریکی فوجی اب بھی افغانستان میں تعینات ہیں تاکہ دہشت گردوں کے خلاف مہم میں ان کی مدد کر سکیں۔
امن مذاکرات کا مبہم مستقبل :
یہ حملے ایسی حالت میں ہوئے ہیں کہ افغان بین الاقوامی امن مذاکرات کا مستقبل ابہام کے دائرے میں ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان کے ایک سیکورٹی عہدیدار نے کہا کہ اوباما انتظامیہ نے طالبان سے براہ راست مذاکرات کے دعوے کرکے چار فریقی مذاکرات کو تباہ کر دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ افغان امن مذاکرات کا نیا مرحلے جو روس کی پہل سے شروع ہوا ہے، اب تک کوئی خاص نتیجہ نہیں دے سکا ہے کیونکہ اس میں افغان حکومت کے نمائندون کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی جس سے افغان حکومت کافی ناراض ہے۔