الوقت - ایک کرد عہدیدار نے بتایا ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا سرغنہ موصل سے کس طرح فرار کرنے میں کامیاب ہوا۔
عراقی کردستان کے صدر مسعود بارزانی کے دفتر کے سربراہ فؤاد حسین کا کہنا ہے کہ داعش کا سرغنہ دو ماہ پہلے اور عراقی فوج کی جانب سے موصل میں داعش پر شدید حملے شروع کئے جانے کے بعد جس کی وجہ سے مغرب کی طرف جانے والا ایک راستہ کھل گیا تھا، موصل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ انہوں نے انڈیپینڈنٹ میگزین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ داعش نے موصل میں 17 کار بموں اور شام میں اپنے جنگجوؤں کو استعمال کیا تاکہ موصل سے باہر کی طرف جانے والا راستہ کچھ دیر کے لئے کھل جائے۔ انہوں نے بتایا کہ کرد حکام کا خیال ہے کہ داعش صرف اسی وقت اتنے زیادہ جانی نقصان کے ساتھ اس طرح کی بڑی کارروائی کرتا ہے جب وہ ابو بکر البغدادی کو بحفاظت باہر نکالنا چاہتا ہے۔
مشرقی موصل کی آزادی کے بعد اور مغربی موصل پر عراقی سیکورٹی فورسز کا آخری حملہ شروع ہونے سے پہلے 19 فروری کو داعش کا سرغنہ موصل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ فؤاد حسین نے بتایا کہ داعش نے شام سے 300 جنگجوؤں کو طلب کیا تھا اور ان کے ساتھ عراقی سیکورٹی فورسز کی شدید جھڑپیں ہوئیں۔ موصل سے فرار ہونے کا واحد ممکنہ راستہ مغرب کی جانب تھا اور انہیں رضا کار فورس کے کنٹرول والے علاقے سے گزرنا تھا۔ اسی لئے انہوں نے پوری طاقت کے ساتھ حملہ کیا اور رضاکار فورس کو کچھ وقت کے لئے واپس دھکیل دیا اور اس طرح ابو بکر البغدادي اس راستے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ریڈیوئی گفتگو سے بھی پتہ چلا کہ وہ ایک کامیاب مہم سے بہت خوش تھے۔