الوقت- انقرہ میں تعینات روس کے سفیر آندرے کارلوف کو دو دشنبہ کو اس وقت فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا جب وہ انقرہ میں ایک آرٹ گیلری کے پروگرام کو خطاب کر رہے تھے۔ ان پر فائرنگ کرنے والا مولود مرت آلتین تاش نامی سیکورٹی اہلکار تھا۔ اس واقعے کے بعد، اس واقعے کا متعدد تجزیہ کیا گیا خاص طور پر اس حمل کے کا مقاصد ہیں۔ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ اس قتل کا مقصد، ترکی اور روس کے تعلقات کو متاثر کرنے اور ماسکو کی میزبانی میں شام کے حوالے سے ایران، روس اور ترکی کے سہ فریقی اجلاس کو متاثر کرنا تھا۔
بہرحال اس طرح کے حادثے جو بے نظیر ہوتے ہیں، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر نئے حالات کا مقدمہ بن سکتے ہیں۔ اس موضوع کی اہمیت کے مد نظر اس تجزیہ میں اس واقعے کے کچھ اہم نکات کی جانب اشارہ کیا جائے گا۔
سب سے پہلے، حادثے کے وقت نے علاقائی تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے کیونکہ یہ واقعہ ایران، روس اور ترکی کے وزرائے خارجہ کے سہ فریقی اجلاس سے ٹھیک ایک دن پہلے رونما ہوا جس کا اصل ہدف بحران شام کے حل کے لئےسیاسی راہ حل تلاش کرنا تھا۔ البتہ اس اجلاس کا موضوع صرف شام تک ہی محدود نہیں تھا اور ہو سکتا ہے کہ طولانی مدت میں علاقائی سیکورٹی کے بحران کو حل کرنے لئے ایک مناسب آئیڈیل میں تبدیل ہو جائے۔ اسی لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ روسی سفیر کے قتل کا ہدف اس سہ فریقی اجلاس کو متاثر کرنا اور سیاسی اور سیکورٹی لحاظ سے سہ فریقی آئیڈیل کی تشکیل کو روکنا تھا۔
اس واقعے کی اہمیت کے مد نظر اس واقعے میں ملوث عناصر کا اہم ہدف جس کی جانب ترکی اور روسی حکام نے بھی کیا ہے، ماسکو اور انقرہ کے تعلقات کو معمول پر آنے کے عمل میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا کیونکہ حالیہ دنوں میں دونوں فریق نے تعلقات کی بحالی کے لئے اہم اقدامات کئے اور متعدد مسائل خاص طور پر شام کے مسئلے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ نزدیک ہونے کی کوشش کی ہے۔
اسی تناظر میں روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے انقرہ میں ماسکو کے سفیر کے قتل پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ٹی خطاب میں کہا کہ اس اقدام کا ہدف، ترکی اور روس کے تعلقات کے معمول پر آنے کے عمل میں مانع تراشی کرنا اور شام کے امن مذاکرات کو پٹری سے اتارنے کی کوشش ہے۔ دوسری جانب اردوغان نے بھی روسی سفیر کے قتل کو اشتعال انگیز کاروائی قرار دیا اور کہا کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب ترکی اور روس تعلقات کو بحال کرنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں لیکن اس واقعے میں ملوث عناصر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ماسکو اور انقرہ نے سازش کاروں کے چنگل میں نہ پھنسے کا مضبوط ارادہ کر لیا ہے۔
بہرحال مشرقی حلب سے مسلح افراد کے انخلاء اور ادلب کے مضافاتی علاقے کفریا اور فوعہ سے زخمیوں، بیماروں، بچوں اور خواتین کے انحلاء کے لئے ترکی اور روس کے درمیان ہونے والے حالیہ معاہدے سے مغربی اور عرب فریق زیادہ خوش نہیں ہوئے اور اس موضوع نے ان کو بہت زیادہ تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔
اس واقعے کا ایک ہدف، شام کے حلب شہر کی کامیابی پر پردہ ڈالنا بھی ہو سکتا ہے۔ حلب کی کامیابی شامی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی بہت بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے جس کے بعد مغربی اور عرب ذرائع ابلاغ نے پروپیگینڈوں کی ایک لہر شروع کر دی۔