الوقت - ترکی میں جہاں حکومت فوج کے اعلی حکام اور فوجی اہلکارو سمیت ملازمین کو برخاست کر رہی ہے وہیں اس ملک کے دو اعلی فوجی افسران نے اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی دوغان کے مطابق جنرل احسان اویار اور جنرل کامل باش اوغلو نے جمعرات کو سپریم ملٹری کونسل کے اجلاس سے قبل اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں افسران نے فوج سے ہزاروں کی تعداد میں اہلکاروں اور افسروں کی برطرفیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنے عہدوں سے استعفی دیا ہے۔
درایں اثنا اطلاعات ہیں کہ ترک حکومت نے سرحدی فورس اور کوسٹ گارڈ کی کمان کو بھی وزارت داخلہ کے سپرد کردیا ہے۔ ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں بحران بڑھتا ہی جا رہا ہے اور حکومت نے ملک کی خبریں باہر جانے کے خوف سے درجنوں میڈیا ہاوس پہلے ہی بند کر دیئے ہیں۔
15 جولائی کو بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سے ترکی میں جاری گرفتاریوں، برطرفی اور تشدد کا سلسلہ مزید بڑھ گیا ہے اور اب حکومت نے فوج اور میڈیا پر اپنا شكنجہ کسنا شروع کر دیا ہے۔
ترکی میں بغاوت کی کوشش کے پیچھے امریکا میں رہنے والے فتح اللہ گولن کا نام آ رہا ہے، ان کے ماننے والوں کو ترکی میں چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اب تک تقریبا 1700 فوجیوں کو برخاست کیا جا چکا ہے۔ ایسے 131 میڈیا تنظیموں کو بھی بند کروا دیا گیا ہے جن کے تعلق مغربی ممالک سے ہیں۔
اب تک پولیس اہلکاروں، ججوں، اساتذہ سمیت ہزاروں لوگوں کو یا تو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے یا ان سے حراست میں لے کر پوچھ تاچھ جاری ہے۔ فتح اللہ گولن امریکہ کے پنسلوانیا صوبے میں رہتے ہیں اور ترکی میں ان کے تمام اسکولوں سمیت تمام سرگرمیاں جاری ہیں۔ گولن نے بغاوت میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
مغربی حکومتیں اور انسانی حقوق کی تنظیم ترکی کے ان سخت اقدامات کی مذمت کر رہی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اس موقع کا استعمال کر صدر اردوغان اپنے تمام مخالفین کا صفایا کرنا چاہتے ہیں۔ وہیں اردوغان سمجھتے ہیں کہ گولن کی مہم نے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے اور فوج، میڈیا اور عوام کے ساتھ مل کر ملک میں ایک "متوازی حکومت" کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔
ترک میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق بدھ کو فوج سے اہلکاروں 1684 کو نکال دیا گیا۔ 149 جنرل اور ایڈمرل رینک کے فوجی افسران سمیت ان سب پر بغاوت میں شامل ہونے کا الزام ہے۔ امریکی نیوز نیٹ ورک سی این این ترک نے بتایا ہے کہ 15000 سے زیادہ لوگوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
میڈیا پر شكنجہ کستے ہوئے حکومت نے تین نیوز ایجنسیوں، 16 ٹی وی چینلز، 45 اخبارات، 15 رسالے اور بہت سے پبلشرز کو بند کروا دیا ہے۔ حکومت کو شک ہے کہ ان کے رابطے گولن گروپ سے ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ترکی میں قصورواروں کو پکڑے جانے کا مقصد سمجھتا ہے لیکن اس کے نام پر بہت سے صحافیوں کو پکڑا جانا ایک "پریشان کن رجحان " لگتا ہے۔
ترکی کے مشہور اخبار زمان کو مارچ میں ہی بند کروا دیا گیا تھا اور اب اس سے وابستہ مزید 47 صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بائیں بازو کی جانب رجحان رکھنے والے صحافیوں بھی نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔
اردوغان کی حکمراں جماعت اور اپوزیشن میں ملک میں آئینی تبدیلی کے حوالے سے کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ترکی کی حکومت سزائے موت کو پھر سے بحال کرنا چاہتی ہے، جس کی عوام سمیت مغربی ممالک مخالفت کر رہے ہیں۔