الوقت - روس نے ایسے حالات میں شام سے اپنے فوجیوں کے انخلاء کی اطلاع دی ہے کہ ان فوجیوں نے گزشتہ پانچ مہینے کے دوران شام میں دہشت گردوں کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور روسی فوج نے دہشت گردوں کے زیر کنٹرول علاقوں کی آزادی کے لئے شام کی فوج کی بہت زبردست حمایت کی۔
دمشق سے تسنیم نیوز ایجنیسی کی رپورٹ کے مطابق، روس نے ایسے حالات میں شام سے اپنے فوجیوں کے انخلاء کی اطلاع دی ہے کہ ان فوجیوں نے گزشتہ پانچ مہینے کے دوران شام میں دہشت گردی کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور روس کی فوج نے دہشت گردوں کے زیر کنٹرول علاقوں کی آزادی کے لئے شام کی فوج کی بہت زبردست حمایت کی۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتین کے شام سے فوجیوں کے انخلاء کے فیصلے نے بہت سے مغربی اور عرب ممالک کو حیرت زدہ کر دیا کیونکہ یہ فیصلہ بہت ہی حساس وقت میں کیا گیا ہے اور اس سے قیاس آرائیوں کا ماحول گرم ہو گیا ہے۔
روس کی فوج نے پانچ مہینے پہلے شام میں اپنی مہم شروع کی تھی اور اب تک اس نے دہشت گردی کے خلاف بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور روسی فوج کی حمایت سے شامی فوج نے بہت سے علاقے آزاد کرائے ہیں۔
30 ستمبر 2015 کو ماسکو نے شام میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر فوجی کاروائی شروع کی تھی۔ روس کی پارلیمنٹ نے ایک قانون کو منظوری دی جس کے تحت روسی صدر ولادیمیر پوتین کو ملک سے باہر ائیرفورس کے استعمال کی اجازت مل گئی اور دہشت گردی کے مقابلے کے تناظر میں شام میں روسی فوج بھیجنے پر مبنی اس ملک کے صدر بشار اسد کی درخواست کے بعد روس نے شام کے اندر فوجی کاروائی شروع کر دی۔
اس کے بعد سے روس کی فضائیہ نے نصرہ فرنٹ اور داعش سمیت تمام دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں پو متعدد بار حملے کئے اور اس دوران متعدد شہروں سے دہشت گردوں کے دسیوں ٹکھانے تباہ ہوئے اور ان کے ہتھیاروں کے ذخائر نابود ہوگئے۔ اس کے علاوہ روس کی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ داعش کے تیل اسمگلنگ کرنے والے دو لاکھ ٹینکروں کو تباہ کر دیا۔ ان تیل ٹینکروں کے ذریعے داعش ترکی تیل اسمگلنگ کرتا تھا۔ روس کی وزارت دفاع نے یہ بھی بتایا کہ داعش کی سپلائی لائن کاٹ دی گئی ہے۔
ان تبدیلیوں کے بعد شام کے صدر بشار اسد نے روس کا دورہ کیا اور اپنے روسی ہم منصب سے شام کے اندر دہشتگردی کے مقابلے میں فوجی کاروائی کے تناظر میں روس کی فوج مہم کی جزئیات پر گفتگو کی تھی۔
اس ملاقات میں بشار اسد نے مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کی راہوں کی حمایت کرنے اور دہشت گرد گروہوں کی تباہی کے لئے کوششوں پر مبنی واضح موقف کی تعریف کی۔ در ایں اثنا ایک اہم واقعہ پیش آیا جو بہت زیادہ خطرناک موڑ سمجھا جا سکتا ہے۔ روس کے جنگی طیارے کو ترک فوجیوں نے میزائیل سے مار گرایا۔ اس حملے میں روس کا ایک پائلٹ ہلاک ہو گیا جبکہ شام کی فوج کے خصوصی دستوں نے دوسرے پائلٹ کو بچا لیا اور اسے حمیمیم چھاونی منتقل کر دیا۔ اس وقت انقرہ نے دعوی کیا کہ روس کے جنگی طیاروں نے ترک سرحد کی خلاف ورزی کی تھی۔ اس حملے کے بعد انقرہ اور روس کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اتنی زیادہ بڑھ گئی تھی کہ روس کی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں نے ترکی چھوڑنے کی اپیل کر دی اور علاقے میں جنگ عظیم کا نقارہ بج گیا۔ روس کے جنگی طیارے پر حملے کے دو دن بعد روس نے ایس-400 میزائیل سسٹم لاذقیہ کی حمیمیم چھاونی میں نصب کر دیا اور اپنے اس اقدام کو شام میں فوجی مراکز کی حفاظت کا نام دیا۔ اس کے بعد روس نے سوخوئی-35 طیاروں کو شام میں تعینات کر دیا تاکہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف حملے میں پیشرفتہ طیاروں سے استفادہ کیا جا سکے۔
بہر حال شام میں روسی فوجیوں کی موجودگی کے بعد شامی فوج نے متعدد کامیابیاں حاصل کی ہیں اور کے تحت فوج نے لاذقیہ شہر کے شمالی علاقوں پر دوبارہ کنٹرول کر لیا اور علاقے کو پر امن کر دیا اور علاقے کو پوری طرح دہشت گردوں کے وجود سے پاک کردیا۔ شام کی فوج نے اسی طرح اردن کی سرحد سے ملے ادلب شہر میں بھی جو نصرہ فرنٹ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، پیشرفت کی ہے۔
دہشت گردوں کے مقابلے میں شامی اور روسی فوج کی زبردست کامیابیوں کے بعد روس نے شام میں جنگ بندی کی تجویز پیش کی تاہم جنگ بندی کی اس تجویز سے داعش اور نصرہ فرنٹ کو مستثنی کیا گیا تھا۔ جنگ بندی کے بعد شام کے ان علاقوں میں ہوائی حملے رک گئے جہاں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ ابھی جنگ بندی کو کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتین نے بشار اسد سے ٹیلیفونی گفتگو کی اور دونوں فریق نے شام میں روسی فوج کی تعداد کم کرنے پر اتفاق کیا۔ پوتین کا کہنا تھا کہ شام میں فوجیوں کا آپریشن جس مقصد کے لئے شروع کیا گیا تھا اس کو کسی حد تک حاصل کر لیا گیا ہے جبکہ روس نے دہشت گردوں کے خلاف شام کی عوام اور حکومت کی حمایت کا اعلان بھی کیا اور تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اب وقت کی بتائے گا آگے کیا ہونے والا ہے۔