الوقت - اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے شام میں نافذ جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ جنگ بندی کے دوران دہشت گردوں کو مضبوط ہونے کا موقع نہ ملے۔
صدر حسن روحانی نے سنیچر کی شام، شامی وزیر خارجہ ولید المعلم سے تہران میں ملاقات کے دوران، شامی حکومت، عوام اور فوج کی کامیابیوں پر انہیں مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ حلب کی کامیابی نے تمام دہشت گردوں کو یہ پیغام دیا کہ انہیں جرم و خونریزی کے اپنے راستے میں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی ۔
صدر روحانی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ حلب کی آزادی کے بعد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور شام میں سیاسی ماحول بنانے اور سیکورٹی قائم کرنے کا مقدمہ فراہم ہو گیا ہے امید ظاہر کی کہ بحران شام کے اختتام اور امن مذاکرات کے لئے اگلے اقدامات کے نتیجے میں اس ملک کے عوام کو تحفظ ملے اور شام کی ارضی سالمیت کو تقویت ملے گی۔
صدر روحانی نے زور دیا کہ ایران، مزاحمت کے میدان میں اور مختلف سیاسی محاذوں پر ہمیشہ شامی عوام کے ساتھ رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس کی حمایت جاری رکھے گا اور آخر کار کامیابی شامی عوام کی ہوگی۔
اس ملاقات میں شام کے وزیر خارجہ نے بھی کہا کہ شامی صدر بشار اسد نے ایرانی عوام اور حکومت کو سلام کہلایا ہے اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ شامی وزیر خارجہ نے کہا کہ یقینی طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کی وسیع حمایت کی وجہ سے دہشت گردوں کے مقابلے مزاحمت کے لئے حوصلے بلند ہوئے۔
اس سے پہلے شام اور ایران کے وزرائے خارجہ نے اپنی ملاقات میں شام کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا تھا ۔
سنیچر کو تہران پہنچنے والے شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے اپنے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف سے ملاقات کی ۔
اس ملاقات میں دہشت گرد گروہوں سے جدوجہد کے بارے میں اور اسی طرح شام میں قیام امن اور مذاکرات کے لئے پیش کی گئی سیاسی تجاویز کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔
شام کے وزیر خارجہ نے اسی طرح اپنے دورہ تہران کے دوران ایران کے اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمخاني سمیت کئی دیگر اعلی حکام سے بھی ملاقاتیں کی ۔ شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم اور قومی سلامتی کونسل کے سربراہ علی مملوک اپنے ملک کے تازہ حالات کے بارے میں ایرانی حکام سے مذاکرات اور مشاورت کے لئے پیر کو تہران پہنچے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ایران، روس اور شام کی مسلسل مشاورت کے نتیجے میں شام کے حالات نئے مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔ حلب کی آزادی نے دہشت گردوں اور ان کے حامیوں اور اسی طرح ان کے سیاسی اندازوں کو کاری ضرب لگائی ہے۔
شام کے موجودہ حالات سے جو صورتحال وجود میں آئی ہے اس سے اس ملک میں سیاسی گفتگو کے آغاز کا زمینہ فراہم ہوا ہے۔ ایران اور روس کی کوشش کو اقوام متحدہ کی حمایت اور شام کے حالات کے مثبت ہونے کے بارے میں اسٹیفن ڈی مستورا کے بیان سے ان کوششوں کے نتیجہ خيز ہونے کی امیدیں بڑھی ہیں لیکن اب بھی کچھ حلقے ہیں جو اس روش کے برعکس عمل کر رہے ہیں تاہم ترکی نے حلب کی حالیہ جنگ میں حکومت شام کے خلاف بر سر پیکار دہشت گرد گروہوں کی مدد روک دی۔
اس وقت ایران، روس اور ترکی نے ماسکو منشور کے دائرے میں حلب کی دہشت گردوں کے چنگل سے آزادی، دہشت گرد گروہوں کے خلاف جاری کارروائی اور شام میں وسیع جنگ بندی کے نفاذ کے ساتھ ساتھ سیاسی مذاکرات کے آغاز زمینہ ہموار کرنے میں اپنے مؤثرکردار کو ثابت کر دیا ہے۔
شام کے وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کا دورہ تہران اور ایرانی حکام سے ان کی گفتگو اسی موقف کے تحت جائزے کے قابل ہے۔
بہر حال میں شام میں تصادم کے رکنے سے شام کے عوام کی مصیبتیں کم ہو سکتی ہیں اور یہ شام کے شہریوں کے لئے بہت اچھی خبر ہے لیکن اس ملک میں جنگ کا خاتمہ، مختلف قسم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے میدان میں شامی حکومت کے ساتھ بین الاقوامی تعاون اور اس تناظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے نفاذ پر منحصر ہے۔