الوقت - امریکا نے پاکستان کے میزائل پرگرام سے مبینہ طور پر وابستہ 7 اداروں پر پابندی عائد کردی۔
امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے 7 اداروں کو ایکسپورٹ ایڈمنسٹریشن ریگولیشنز(ای اے آر) کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ امریکی حکومت نے دعوی کیا کہ پاکستان کے مذکورہ سات اداروں کو امریکا کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے خلاف اقدامات کرنے کی وجہ سے پابندیوں کی فہرست میں شام کیا گیا ہے۔ امریکی وزارت خزانہ نے جن اداروں اور کمپنیوں پر پابندی عائد کی ہیں ان میں احد انٹرنیشنل، ایئر ویپنس کمپلیکس (اے ڈبلیو سی)، انجنیئرنگ سولیوشنز پرائیویٹ لمیٹڈ، میری ٹائم ٹیکنالوجی کمپلیکس (ایم ٹی سی)، نیشنل انجنیئرنگ اینڈ سائنٹفک کمیشن (نیسکوم)، نیو آٹو انجنیئرنگ (این اے ای) اور یونیورسل ٹولنگ سروسز شامل ہیں۔
امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے ادارے :
پاکستانی میڈیا کے مطابق، امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے احد انٹرنیشنل ادارے کا دفتر لاہور کے ایمپریس ٹاور کی دوسری منزل پر واقع ہے جبکہ اس ادارے کا دوسرا دفتر بادامی باغ روڈ پر واقع نو مرو سینٹر کی دوسری منزل پر ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایئر ویپنس کمپلیکس (اے ڈبلیو سی)کا دفتر اے - 5 آفیسرز کالونی واہ کینٹ میں ہے۔ انجنیئرنگ سولیوشنز پرائیویٹ لمیٹڈ کا دفتر اسلام آباد کے ابن سینا روڈ پر واقع ہے جبکہ میری ٹائم ٹیکنالوجی کمپلیکس (ایم ٹی سی) کا ایک دفتر کراچی کے پلاٹ نمبر 94 میں اور دوسرا دفتر پی این ڈاکیارڈ کراچی میں واقع ہے۔ بیان کے مطابق نیشنل انجنیئرنگ اینڈ سائنٹفک کمیشن (نیسکوم) کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ہے جب کہ نیو آٹو انجنیئرنگ (این اے ای) ادارے کا دفتر راولپنڈی کے انڈسٹریل ایریا میں واقع ہے۔ امریکی پابندیوں کا شکار ہونے والے ادارے یونیورسل ٹولنگ سروسز کے دفاتر پنجاب کے تین مختلف مقامات پر ہیں۔
امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے پاس اس بات کے پختہ ثبوت ہیں کہ پاکستان کے مذکورہ 7 نجی ادارے امریکا کی قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی کے برخلاف اقدامات کر رہے ہیں۔
امریکا کی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ساتوں ادارے اور ان سے وابستہ افراد ایکسپورٹ ایڈمنسٹریشن ریگولیشنز(ای اے آر) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے اور پورے مملک میں ممنوع اشیاء منتقلی کرتے ہیں۔ امریکی حکومت کا موقف ہے کہ پابندیوں سے یہ فائدہ ہوگا کہ ممنوعہ اشیاء کی منتقلی کے لئے ان اداروں کو لائسنس کی ضرورت پڑے گی اور اقدام میں شامل تمام افراد کو باضابطہ طور پر لائسنس لینا پڑے گا۔
کیا ہیں الزامات :
امریکا کی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق پابندیوں کی زد میں وہ ذیلی ادارے اور وہ شخصیات بھی آئيں گی جو ان اداروں کی برآمدات ملک بھر ترسیل میں مدد کرتے ہيں۔ امریکی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں یہ وضاحت نہیں کی گئي ہے کہ ان اداروں کی جانب سے کس طرح کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ اداروں کو کون سی اشیاء برآمد اور درآمد کرنی چاہئے۔
پاکستان کا موقف :
پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ اس کے نیوکلیئر میزائل پرگرام کے بارے میں کسی کے ساتھ بھی غیر قانونی روابط نہیں ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس کے ایٹمی اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں اور جدید اسلحوں سے لیس انتہائی تربیت یافتہ سیکورٹی فورس کے تقریبا 2500 اہلکاراس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے لئے اسپیشل ریسپانس فورس، اسپیشل اسکواڈ فورس، میرین فورس، کاؤنٹر انٹیلی جنس ٹیمیں اور ریلائی ایبلٹی پروگرامز موجود ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1999 میں پروگرام کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا لیکن اس کی مرکزی کمانڈ ، نیشنل کمانڈ اتھارٹی ہے جس کے سربراہ وزیراعظم ہیں۔