الوقت - ڈونلڈ ٹرمپ امریکی معیشت کو بہتر بنانے اور غیر ملک میں فوجی خرچوں کو کم کرنے کے نعرے کے ساتھ اپنی حریف ہلیری کلنٹن پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔ امریکا کے مشرق وسطی اور یورپی اتحادیوں کی سیکورٹی میں کردار بڑھانے اور اس تناظر میں ملکی اخراجات میں کمی کرنے سے متعلق بیانات سے نیٹو کے ارکان اور علاقے کے عرب رہنماؤں کی تشویش میں اضافہ ہو گیا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکا کے نو منتخب صدر نے امریکا کے دیگر رہنماؤں اور صدور کے برخلاف روس اور پوتین کے حوالے سے نرم موقف اختیار کر رکھا ہے۔ حتی انتخاباتی مہم کے دوران امریکا کے صدر باراک اوباما نے ٹرمپ اور پوتین کے تعلقات کی تنقید کی تھی اور اس کو ایک امریکی سیاست داں کے لئے عدیم المثال قرار دیا تھا۔ ابھی سیاسی حلقوں میں گفتگو گرداں ہی تھی کہ امریکا کے نو منتخب صدر نے ملک کی اہم وزارت یعنی وزارت خارجہ کا قلمدان اکشن موبیل تیل کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر رکس ٹیلرسن کے حوالے کر دیا جو روس کے ساتھ گرم تجارات کے حامیوں میں ہیں۔
ان سب کے باوجود روس کے مواقف کے بارے میں ٹرمپ کا پہلے باضابطہ رد عمل نے واضح کر دیا کہ کرملین کے بارے میں موجودہ صدر کا موقف وہی جو ان سے پہلے والوں کا تھا۔ پوتین کی جانب سے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے ذحائر کو مضبوط کرنے کے احکامات کے جاری ہونے کے کچھ گھنٹے کے بعد ہی امریکا کے نو منتخب صدر نے ٹوئٹ کیا کہ امریکا اپنی ایٹمی توانائی کو اس وقت تک پوری طاقت سے مضبوط، پیشرفتہ اور وسیع کرتا رہے گا جب تک دنیا ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں کسی معقول نتیجہ تک نہيں پہنچ جاتی۔
اس خبر کے شائع ہونے کے بعد چین کی وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے ٹوئٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو مضبوط کرنے اور پیشرفتہ بنانے کے بجائے اپنے ایٹمی ذخائر کو کم کرے اور اس بڑے ذخائر کو ختم کرنے کی راہ میں قدم بڑھائے۔
پوتین بھی یہ جملہ کہنے سے نہیں چوکے کہ مجھے اس بات پر ذرہ برابر بھی تعجب نہیں ہوا کہ امریکا کے صدر نے اپنی فوج کی ایٹمی توانائی میں اضافے پر تاکید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری سمجھ میں نہيں آ رہا ہے کہ امریکا کے موجودہ حکام کیوں اس بات پر مصر ہیں کہ وہ سب سے زیادہ طاقتور ہیں؟ ان کے پاس میزائیلوں اور جنگی بیڑوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن ہم اس بات سے انکار نہيں کر رہے ہیں بلکہ ہمارا کہنا ہے کہ ہم ہر جارح سے زیادہ طاقتور ہیں یہ ایک حقیقت ہے۔
ایٹمی مسئلے میں امریکی اور روسی حکام کے سخت رد عمل کے مد نظر کچھ ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ اور پوتین کے تعلقات کے ہنی مون کا دور ختم ہو گیا ہے لیکن در حقیقیت امریکا اور روس نے دنیا کی پہلی فوجی طاقت بننے کے لئے جو پیغامات دیئے ہیں اس کے مد نظر اگر ٹرمپ کی جانب سے فوجی طاقت میں اضافے سے متعلق روس کے بیان پر پر کوئی جواب نہیں دیا گیا تو یہ ایک اسٹرٹیجک غلطی ہوگئی۔
موجودہ وقت میں دنیا میں 9 ایٹمی طاقتیں ہیں جن کے پاس 27 ہزار ایٹمی وار ہیڈز ہیں اور ان میں سے 97 فیصد امریکا اور روس کے پاس ہیں۔ روس کے پاس آٹھ ہزار سے زائد ایٹمی وار ہیڈز ہیں جبکہ امریکا کے پاس سات ہزار سے زاید ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔ ان دونوں ممالک کے بعد فرانس کے پاس 350، برطانیہ اور چین کے پاس 200 – 200 ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔