الوقت - مشرق وسطی میں ناامنی اور تشدد کی لہر جو مغرب اور اس کے علاقائی اتحادیوں کی براہ راست مداخلت کا نتیجہ ہے، پانچ سال بعد یورپ پہنچ گئي۔ ان واقعات کا نتیجہ، مغربی ممالک کی جانب جنگ زدہ علاقوں سے مہاجرین کی وسیع لہروں اور دہشت گردانہ حملوں کی شکل میں برآمد ہوا۔
در ایں اثنا یورپی ممالک میں سب سے زیادہ دہشت گردانہ حملے فرانس میں ہوئے۔ اسی لئے اس ملک کے حکام نے نومبر 2015 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جس میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے، ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی جو اب تک جاری ہے۔ ایمرجنسی کی مدت میں ہر چھ مہینے میں توسیع کی جاتی ہے۔ در ایں اثنا کرسمس اور نئے سال کے موقع پر یورپ کے بڑے ممالک یعنی فرانس، جرمنی اور برطانیہ اپنے شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہیں۔ اس تشویش میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب یہ خبر منظر عام پر آئی کہ انقرہ میں سیاسی حکام کے سیکورٹی اہلکار نے روسی سفیر کو قتل کر دیا۔
داعش کے حامی یورپ میں اپنے اقدام کے لئے ہر اجتماع سے استفادہ کرتے ہیں۔ در ایں اثنا حکومتوں کے کمزور سیکورٹی نظام بھی ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کو مزید آسان کر دیتے ہیں۔ اسی لئے کرسمس کے جشن کی تیاری میں مصروف بے گناہ عوام سے بھرے برلن کے کرسمس بازار میں ایک دہشت گرد نے اندھا دھند ٹرک چلا کر دسیوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس حملے کے بعد فرانس، برطانیہ، اٹلی اور اسپین کے کرسمس بازاروں میں ہر طرح کے ممکنہ دہشت گردانہ حملے کو روکنے کے لئے سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ عوام نے ریٹائرمینٹ کے قوانین، نوکری اور اقتصادی صورتحال پر اعتراض کرتے ہوئے برطانیہ سمیت یورپ کے کئی علاقوں میں مظاہرے کئے جس سے شہروں کی سیکورٹی حالت کو مزید چیلنز کا سامنا کرنا پڑا۔ در ایں اثنا برطانیہ کی حکومت کو یورپی یونین سے ملک کے نکلنے کے لئے عوامی ووٹنگ کا سامنا کرنا پڑا اور ملک میں شدید سیکورٹی کے انتظامات کے درمیاں، اسے کرسمس کے موقع پر ریل، پوسٹ آفس اور ائیر لائن کے ملازمین کے وسیع مظاہروں کا خدشہ ہے ۔ عوامی مظاہروں اور لوگوں کے غم و غصے کی وجہ سے حمل و نقل کا نظام معطل ہو سکتا ہے اور عوام کی معمولات زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب یورپ بدستور بحران پناہ گزین اور مہاجرین کا سامنا کر رہا ہے۔ گرمی کے موسم میں شروع ہونے والا یورپ اور ترکی کی جانب پناہ گزینوں کو لوٹانے کا منصوبہ بھی حکومتوں نے اپنے پروگرام میں شامل کیا ہے۔ اسی تناظر میں جرمنی نے 12 ہزار سے زائد افغان پناہ گزینوں کو نکال کر ترکی اور افغانستان بھیج دیا ہے۔ برلن کے کرسمس بازار میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں ایک مہاجر کے ملوث ہونے کے پختہ ثبوت ملنے کے بعد شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں سے جو مغرب کی مداخلت پسندانہ پالسیوں کا نتیجہ ہے، پناہ گزینوں کی لہر سے مقابلے اور ان کو واپس کرنے میں پیدا ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ بریگزیٹ کے لئے برطانوی عوام کی ووٹنگ ایسی حالت میں تھی کہ یورپی یونین کی رکنیت جاری رکھنے کے مخالفین کا کہنا ہے ہے کہ ملک میں مہاجرین کے داخلے سے ملکی معشیت تباہ ہو جائے گی۔
بہرحال ایک بازار میں کچھ عام شہریوں کی ہلاکت نے پوری دنیا کی تشویش میں اضافہ کر دیا لیکن گزشتہ چھ برسوں میں شام، عراق، یمن، لیبیا اور مصر میں لاکھوں افراد کو خاک کو خون میں غلطاں کیا جانا، ٹی وی چینلز کی ایک معمولی خبر میں تبدیل ہو گیا ہے۔