الوقت - 13 نومبر کو صیہونی حکومت کی کابینہ نے دو اہم قوانین پر موافقت کی۔ پہلی لاؤڈاسپیکر سے اذان پر پابندی اور دوسرے مغربی کنار پر فلسطینیوں کے علاقوں میں بنی غیر قانونی صیہونی کالونیوں کو قانونی شکل دینا۔
اس حوالے سے صیہونی اخبار ہارٹص نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں ان دونوں قراردادوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلے قانون کے مطابق اذان کی آواز سے کالونیوں میں رہ رہے صیہونیوں کو اذیت ہوتی ہے اور اس سے ماحولیات بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اس قانون کے تحت جو بھی شخص اس قانون کی رعایت نہیں کرے گا صیہونی پولیس اسے گرفتار کر لے گی اور اس سے تحقیقات ہوگی اور اس پرجرمانہ لگایا جائےگا۔ اسی طرح صیہونی پارلیمنٹ کے ایک دوسرے رکن پارلیمنٹ نے مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے علاقوں میں بنی غیر قانونی کالونیوں کو قانونی شکل دینے کی تجویز پیش کی گئی جسے پارلیمنٹ نے منظور کر لی۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ اسرائیلی حکومت کے عدالتی مشیر آویحای مندبلیت نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔
کالونیوں کو قانونی شکل دینے کے اہداف :
نیا قانون جس کو منظور کرانے کی لئے صیہونی حکومت کوشش کر رہی ہے اس کا ہدف عامونا کالونی جیسے نئی کالونیوں اور مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے علاقوں پر بنی کالونیوں کے مسائل کو حل کرناہے۔ اس قانون میں جو چيز سب سے اہم اور قابل توجہ ہے وہ مغربی کنارے اور دیگر فلسطینی علاقوں میں بنی کالونیوں کو صحیح رکھنا ہے۔ اس قانون میں زمین پر مالکانہ حق کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے، قانون میں تاکید کی گئی ہے کہ فلسطینوں کی کالونیوں میں تعیر گھروں کو خالی نہیں کرایا جائے گا اور زمین کے اصلی مالکوں کو اس کا معاوضہ دینے کے بجائے گھر اسی طرح بنے رہیں گے۔ معاوضہ دینے کے بارے میں بھی اس قانون میں وضاحت کی گئی ہے کہ اگر فلسطینی متنازع زمین پر اپنے مالکانہ حق کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو زمین کی قیمت کا 125 فیصد معاوضہ انہیں دیا جائے گا یا وہ کسی دوسری جگہ کوئی پلاٹ لے سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب سے پیچھے کچھ اہداف پوشیدہ ہیں۔
باوجود اس کے کہ صیہونی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کا مقصد اس طریقے سے غیر قانونی کالونیوں کی تعمیر کے سلسلے میں جو اختلافات پیدا ہوئے ہیں اس کو ختم کرنا ہے لیکن اس طرح کے قوانین کالونیوں میں رہنے والے صیہونیوں کے لئے زیادہ سے زیادہ راستہ ہموار کرتے ہیں تاکہ وہ فلسطینیوں کی سرزمین پر مزید قبضہ کریں اور وہاں پر گھروں کی تعمیر کریں اور اس کے لئے انہیں صیہونی حکومت کی کھلی حمایت بھی حاصل ہوگی۔
دوسری جانب اس طرح کے قانون کا مقصد فلسطینیوں اور دیگر لوگوں کہ یہ پیغام پہنچانا ہے کہ متنازع زمین، مقبوضہ زمین کا حصہ نہیں ہے اور قانون کی بنیاد پر اس کے بارے میں سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ صیہونی حکومت کی جانب سے اس طرح کی باتیں، فلسطینوں اور عالمی برادری کے بیانات کے برخلاف ہے جس میں مغربی کنارے پر کالونیوں کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
اسی تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت کے اس منصوبے کا ہدف، عظیم بیت المقدس کے منصوبے کو نافذ کرنا ہے جس کے تحت ان کا ارادہ دوسری کالونیوں کو جزوی طور پر اس شہر کا حصہ قرار دینا ہے تاکہ اس طرح سے وہ آزاد فلسطینی مملک کی تشکیل کے سارے مواقع ختم کر سکیں۔