الوقت - کابل حکومت اور حکمتیار کی حزب اسلامی کے درمیان امن معاہدے کے بعد اور افغانستان کے موضوع پر برسلز میں ہونے والے مذاکرات سے پہلے طالبان نے افغانستان کے اہم شہروں میں اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور یہ حملے حالیہ دنوں میں اتنے زیادہ تیز ہو گئے ہیں کہ فراہ، لشکرگاہ اور قندوز شہروں کے لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ گزشتہ مہینے افغانستان کی حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کو افغان صدر اشرف غنی اور ملک کے چیف ایکزکیٹو عبد اللہ عبد اللہ کی حکومت کے لئے بڑی کامیابی تصور کی جاتی ہے لیکن در ایں اثنا طالبان گروہ نے جو افغانستان میں نیٹو اور امریکا کی فوج کی مخالفت کر رہے ہیں، پہلے سے منظم پروگرام کے تحت برسلز کانفرنس سے ٹھیک پہلے قندوز شہر پر حملہ کردیا اور اس شہر کے بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
قندوز میں افغان فوج اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپیں شروع ہونے کے ساتھ ہی افغان فوج کے کمانڈر مراد علی مراد نے اس شہر کا رخ کیا تاکہ فوجی آپریشن کی ذمہ داری سنبھال سکیں اور شہر کو طالبان سے قبضے سے آزاد کرا سکیں لیکن طالبان کو اس شہر سے نکالنا آسان نہیں ہوگا اور افغانستان کے نائب صدر جنرل عبد الرشید دوستم نے بذات خود علاقے کا دورہ کیا اور فوج کی کمانڈ اپنے ہاتھ میں لی۔
در ایں اثنا قندوز کے گورنر نے جنرل مراد علی مراد کی مذمت کرتے ہوئے قندوز کے بعض علاقوں کے سقوط کا ذمہ دار ان کو قرار دیا اور اس شہر میں طالبان کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت کو خدا کی مرضی بتایا تھا۔ اشرف غنی نے قندوز کے گورنر کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کچھ حکومتی عہدیدار ملک میں امن و استحکام کی برقراری کی اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کے بجائے عام شہریوں کی ہلاکت کو قضا و قدر الہی کا نام دے رہے ہیں۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزی نے افغانستان کے شہروں پر طالبان کے قبضے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یہ مسئلہ افغان حکومت خاص طور پر عبد اللہ عبد اللہ کے لئے تشویش کا سبب ہے۔ حامد کرزئی نے کچھ مہینہ پہلے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان گروہ، افغانی ہے اور اس کو ملک کی سرزمین پر قبضہ کرنے کا حق ہے لیکن امریکا اور نیٹوکے فوجیوں کو جلد از جلد افغانستان سے نکل جانا چاہئے۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا یہ بیان، حکومت اور گلبدین کے درمیان ہوئے امن مذاکرات کے بعد سامنے آیا تھا جس پر عبد اللہ عبد اللہ کا سخت رد عمل بھی سامنے آیا تھا۔ دوسری جانب افغان حکومت نے بارہا پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشت گرد گروہوں سے سنجیدہ مقابلہ کرے۔
افغانستان کی قومی سیکورٹی کونسل کے سرپرست رحمت اللہ نبیل نے بھی پاکستان کے ساتھ افغان حکومت کے جاری تعاون پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردانہ کاروائی میں حقانی نیٹ ورک ملوث ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیل میں بند حقانی نیٹ ورک کے ارکان کو سزائے موت دی جانی چاہئے۔
پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان تعلقات ایک ایسا موضوع ہے جس نے افغان حکومت کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے تعلقات پاکستانی فوج سے ہے اور اس کے طالبان گروہوں سے براہ راست تعلقات ہیں اور صوبہ ہلمند میں افغان طالبان کے حملے میں حقانی نیٹ ورک کے جنگجو شریک ہیں۔
بہرحال افغانستان کی موجود سیکورٹی کی صورتحال کے مد نظر اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ امریکا، نیٹو اور خاص طورپر پاکستان جیسے ممالک کی مداخلت کی وجہ سے اس ملک کو سیکورٹی مسائل کا سامنا ہے اور ہندوستان، پاکستان، روس اور ایران جیسے علاقائی ممالک کی شراکت سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے اس ملک میں امن و استحکام کی برقراری میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔