الوقت - بے شک سعودی عرب نے جو کچھ یمن میں انجام دیا ہے وہ انسانیت کے خلاف جرائم ہے کیونکہ ان جرائم میں خواتین، بچوں، فوجیوں اور عام شہریوں کو نظر انداز کرکے وسیع پیمانے کے جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر حکومتوں کی جانب سے جو اقدامات کئے جاتے ہیں جیسے صنعا میں سعودی عرب کا حالیہ حملہ، ان میں مسئلہ اہم ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ان اقدامات میں کون سی مجرمانہ صفت پائی جاتی ہے، کیا یہ ایک عالمی جرائم کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ جرائم ہے تو ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو ملک یا عالمی سطح پر کس طرح سے قانون کے کٹہرے میں گھڑا کیا جائے۔
پہلے موضوع کے بارے میں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے یمن میں جو کچھ انجام دیا ہے اس پر متعدد قسم کے مجرمانہ عنوان صادق آتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ انسانیت کے خلاف کھلا جرم ہے کیونکہ اس میں خواتین، بچوں، فوجیوں اور عام شہریوں کو نظر انداز کیا گیا اور وسیع پیمانے پر جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ دوسری جانب یہ جرائم خاص مذہب کے پیروکاروں کے خلاف انجام دیئے گئے ہیں، اس کو نسل کشی اور قتل عام کے زمرے میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے جو عالمی سطح پر سب سے بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم جتنا بھی کسی عنوان یا موضوع کے جرائم ہونے پر شک کریں کہ کیا یہ جرائم، جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے، تو شک و شبہات کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ جرائم ایک عالمی جنگ کے دوران انجام پایا ہے اور شہری علاقوں پر حملہ، اور کسی کی زمین پر قبضہ کرنا جیسے بہت سے موضوع جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ دوسری جانب یہ موضوع دوسرے لحاظ سے بھی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جیسے کسی کی زمین پر جارحیت، اس طرح کے موضوع بھی جنگی جرائم سمجھے جاتے ہیں۔
دوسرے موضوع کے بارے میں، یعنی ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کیسے کاروائی کی جائے۔ حتی اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بان کی مون نے سعودی عرب کی جانب سے کئے گئے جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور مجرموں کو قانونی کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ کیا۔ آج کل بغیر قید و شرط کے حکومتوں کی جانب سے انجام دیئے جانے والے جرائم کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں کاروائی اور مجرموں کو سزا دینے کا رواج ہی ختم ہو گیا ہے۔ ہیگ کی بین الاقوامی عدالت جس کی تشکیل 2002 میں کی گئی، اس وقت کسی حکومت یا شخص کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکتی ہے جب وہ حکومت یا شخص ہیگ کی عالمی عدالت کے اعلامیہ کو تسلیم کرتا ہو، یہاں پر نہ تو یمن کی حکومت اور نہ ہی سعودی عرب، دونوں ہی ہيگ کے اعلامیہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لحاظ سے عالمی عدالت بھی اس مسئلے میں ناکارہ ثابت ہوئی۔ ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کے اعلامیہ کے مطابق، کوئی بھی حکومت، اپنے علاقے میں اپنے شہری کی جانب سے کئے گئے جرائم کے بارے میں بین الاقوامی عدالت سے درخواست کر سکتی ہے۔ اس بنا پر یمن کی حکومت عالمی عدالت سے اس طرح کی درخواست کر سکتی ہے۔ جیسا کے کچھ عرصہ پہلے فلسطینی انتظامیہ نے سانحہ غزہ کے حوالے سے عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
البتہ اس معاملے میں عالمی عدالت سے درخواست کرکے مسئلے کو سیکورٹی کونسل میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے لیکن ممکنہ طور پر امریکی حکومت کے ویٹو کی وجہ سے معاملہ پھر وہیں کا وہیں رہ جائے۔
بہرحال اس موضوع پر کسی کو مجرم قرار دینا اور اس بنا پر اس پر قانونی کاروائی کرنا، کوئی آسان کام نہیں ہے اور دنیا میں آزاد گھوم رہے مجرموں کی طرح اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو بھی ان کے کئے کی سزا نہ مل سکے۔