الوقت - داعش کے دہشت گرد نے اس گروہ کی عراق و شام میں شکست کے بعد ادھر ادھر پھیلنے کے ارادے کا انکشاف کیا اور داعش - ترکی کے بیچ آپس میں خفیہ رابطے کا دعوی کیا ہے ۔
دمشق سے چار حصوں پر مبنی سلسلہ وار انٹرویو کے آخری حصے میں پیٹرک کاکبرن نے داعش کے ایک دہشت گرد سے انٹرویو کیا جس کا دعوی ہے کہ داعش شمالی افریقہ میں پھر سے سر اٹھائے گا، ترکی نے اپنی پوری سرحد پر ہتھیاروں کی کھیپ اتارے جانے کی طرف سے آنکھ بند کر لی ہے اور جرابلس میں داعش کے فائٹرز موجود ہیں.
شام کے شمال مغربی علاقے کے رہنے والے داعش کا فراج نامی سابق تیس سالہ دہشت گرد اس خصوصی انٹر ویو میں کہتا ہے، “جب ہم یہ کہتے ہیں کہ داعش ہمیشہ باقی رہے گا اور پھیلتا جائے گا تو یہ کوئی شاعرانہ گفتگو نہیں کرتے.” فراج کہتا ہے کہ داعش سعودی عرب، مصر، لیبیا اور ٹیونس میں پھر سے اپنی طاقت جمع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے سلیپر سلس پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے-
شام کے باہر سے واٹس ایپ کے ذریعہ بات کرتے ہوئے فراج نے اپنی اصل پہچان چھپانے کی درخواست کی اور کہا کہ جب اس نے پہلی بار “اپنے کمانڈروں سے سنا کہ داعش اگر فوجی طاقت کے ذریعہ شکست بھی جائے تب بھی اسی کو کامیابی ہوگی، مجھے لگا کہ وہ ہمارا حوصلہ بڑھانے کے لئے یا اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لئے ایسا کہہ رہا ہے. ” لیکن بعد میں اسے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے سے داعش کے لیڈر کہیں اور اپنے اڈے بنانے کے لئے عملی طور پر اقدام کر رہے تھے. لیبیا کے ایک کمانڈر نے ایک سال پہلے اس سے کہا تھا کہ وہ لیبیا واپس جا رہا ہے “ایک مشن پر اور دو مہینے بعد واپس آئے گا”
فراج کی زبانی داعش کے اندر ہو رہی تبدیلیوں اور خاص طور پر ترکی کے ساتھ داعش کے تعلقات کے بارے میں باتیں کافی راز دارانہ ہیں کیونکہ فراج کی باتیں داعش کے کسی ایسے سابق ممبر کی نہیں ہے جو ماضی کے تلخ تجربے کی وجہ سے داعش سے دور رہنا چاہتا ہے. وہ کہتا ہے کہ داعش کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے اب وہ فائٹر نہیں ہے لیکن اس نے اس کا سبب واضح نہیں کیا. فراج نے کہا، “میں ابھی بھی داعش کی حمایت کرتا ہوں کیونکہ مجھے داعش کے وجود کے پیچھے چھپی حکمت عملی اور مقاصد پر پورا یقین ہے.” حیرت کی بات ہے کہ وہ داعش کو اس کے انتہا پسندانہ نظریے کے سبب اتنا دلچسپ نہیں سمجھتا بلکہ اسے احتجاج کا ایک منظم و موثر ذریعہ سمجھتا ہے.
24 اگست کو شام میں ترکی کی طرف سے شروع ہوئی فوجی مداخلت کے بارے میں فراج نے بہت ہی پر اسرار بات کہی. اس نے کہا، “جب ترکی کی فوج جرابلس میں داخل ہوئی تو میں نے وہاں موجود اپنے دوستوں سے بات کی. در اصل داعش نے جرابلس نہیں چھوڑا ہے بلکہ انہوں صرف اپنی داڑھی منڈوائی ہے.” حالانکہ اس وقت یہ رپورٹ آئی تھی کہ داعش کے لڑاکے جرابلس سے الباب نامی اپنے گڑھ کی طرف فرار کر رہے ہیں۔
داعش اور ترکی کے درمیان سازش کے بارے میں فراج کے دعوے میں دم نظر آتا ہے جو اس نے ایک سال پہلے تل ابیض علاقے کے دفاع کے بارے میں کیا ہے. تل ابیض شام کے رقہ علاقے سے ساٹھ میل دور شمال میں ترکی اور شام کے درمیان کراسنگ پوائنٹ ہے جو داعش کو رسد پہونچانے کے لئے بہت اہم تھا.
2015 میں گرمی کے موسم میں وائی پی جی فورسز نے مشرق اور مغرب سے امریکہ کی ہوائی مدد کے سہارے تل ابیض پر قبضہ کر لیا. چونکہ وائی پی جی فورسز نے دو طرف سے حملہ کیا تھا اسلئے داعش کے لئے تل ابیض کو اپنے قبضے میں رکھ پانا مشکل تھا. فراج اس 150 افراد پر مشتمل داعش کی فورس کا ممبر تھا جو وائی پی جی کے خلاف مقاومت کر رہی تھی. وہ کہتا ہے، “ترکی نے داعش کی بہت مدد کی. جب میں مئی 2015 میں تل ابیض میں تھا ہمیں سرحدی گارڈ کی طرف سے بنا کسی رکاوٹ کے بہت سے ہتھیار اور گولہ بارود ملے.” یہ وہ الزام ہے جو کافی دنوں سے کردوں کی طرف سے لگتا رہا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے جب ترکی-داعش کے بیچ لڑائی کے دوران سازش سے اس جنگجوؤں نے انکشاف کیا ہے جو لڑائی میں موجود تھا.
فراج کا کہنا ہے کہ علاقے کے بہت سے عرب اس لئے داعش میں شامل ہوئے کیونکہ وائی پی جی ان پر ظلم کر رہی تھی.
فراج نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ نہ صرف عراق و شام بلکہ پوری دنیا میں کہیں بھی داعش کے ظلم کو تسلیم نہیں کیا جس کے نتیجے میں داعش نے اپنے دشمن پیدا کئے جنہوں نے اس کا محاصرہ کر لیا ہے تاکہ اس کا خاتمہ کر دیں.