الوقت- افغانستان گزشتہ کچھ عشروں سے مختلف وجوہات کی بنا پر داخلی اور خارجی بحرانوں کا شکار ہے۔ موجود وقت میں یہ ملک اپنے دورے کی سب سے بدتر صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ میں قومی حکومت کی تشکیل سے بعد سے حالیہ دن، اس ملک اور حکومت سے لئے سب سے بدتر دن شمار ہوتے ہیں۔
ملک کا اقتصاد درہم برہم ہو چکا ہے، تعمیری نو میں بری طرح ناکامی ہے، غریبی اور بے روزگاری منہ کھولی کھڑی ہے۔ بحران مہاجرت، منشیات کی پیداوار اور اس کی اسملنگ میں اضافہ، متعدد سیاسی اور سیکورٹی چیلنز، ملک سے بڑے جنوبی اور شمالی حصے میں طالبان کا قبضہ، ننگرہار سمیت ملک کے مختلف مقامات پر داعش کا رعب و دبدبہ اور اس کا قبضہ، اشرف غنی اور عبد اللہ عبد اللہ کے درمیان شدید اختلافات اور21 میہنے گزرنے کے بعد بھی کابینہ کی تشکیل میں مسائل کا سامنا، ان مسائل میں ہیں جن کا افغان حکومت کو سامنا ہے۔
ان سب سے باوجود موجود وقت میں افغان حکومت کے لئے سب سے اہم چیلنج طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ملک کی قومی حکومت کے قانونی ہونے کو ثابت کرنا ہے۔ اس تجزیہ میں مختصر میں اسی موضوع پر گفتگو رہے گي۔
طالبان سے مذاکرات کا مستقبل :
افغان حکومت کے طالبان گروپ کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ گرچہ اس گروپ نے امریکا، چین، افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے مطالبے کے بعد ہی مذاکرات میں شرکت کی تاہم اس نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ افغانستان کے امن و استحکام کا واحد راستہ، غیر ملکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلاء، آزاد انتخابات، آئين میں تبدیلی، قیدیوں کی آزادی اور اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے اس کا نام نکالا جانا ہے۔
دوسری جانب افغانستان کے عوام نے کئی مہینوں سے افغانستان میں عمری نامی آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ گرچہ زیادہ تر علاقوں میں وہ اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے جو بقول افغان حکام کے سرزمینوں پر قبضہ کرنا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنا آپریشن جاری رکھے اور عملی طور پر مذاکرات صلح ایک طرح سے طالبان کو باضابطہ طور پر قبول کرنے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ان حالات میں کہ مذاکرات صلح کسی خاص نتیجہ پر نہیں پہنچے ہیں، حکومتی اداروں اور سیکورٹی اداروں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر تے ہوئے طالبان کی سرکوبی شروع کر دی ہے۔ طالبان کی سرکوبی پر مبنی اشرف غنی کی ہدایت، اس بات کی علامت ہے کہ طالبان کے ساتھ صلح مذاکرات نام رہے ہیں اور کابل دھماکوں کے بعد جن میں 67 افراد ہلاک اور 347 زخمی ہوئے تھے، کابل حکومت نے یہ حکمت عملی اختیار کی۔
قومی حکومت کی پوزیشن :
افغانستان کی حکومت کے لئے جو دوسرا موضوع جیلنج ہے وہ ملک کی قومی حکومت کی قانونی حیثیت ہے۔ گرچہ اس حکومت کی تشکیل، داخلی جنگ کی روک تھام اور سیاسی بحران کو حل کرنے میں اہم قدم سمجھی جا رہی تھی لکین 21 مہینہ گزرنے کے بعد بھی اس حکومت نے وہ کام نہیں کئے جس کی اس سے امید کی جا رہی تھی اور یہ افغان حکومت کے لئے ایک چیلنج سمجھا جاتا ہے۔
ظاہری شکل
مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ کابل پر طالبان کا حالیہ خطرناک حملہ، طالبان کے ساتھ مذاکرت کے تابوت پر آخری کیل تھی۔ اشرف غنی نہ صرف یہ کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور ایک سمجھوتے تک پہنچنے میں نہ صرف یہ کے کامیاب نہیں ہوئے بلکہ ان کے ہاتھ سے ملک کا ایک بڑا حصہ نکل بھی گیا ہے۔ ملا محمد عمر کے نام سے طالبان کا ہونے والا (عمری ) آپریشن پوری آب و تاب سے جاری ہے اور انہوں نے اس کے تحت گزشتہ ایک عشرے کے دوران اہم اور بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔
ان حالات میں امن مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی اور جو کچھ بھی ہے وہ جنگ ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ بہرحال طالبان کے ساتھ جنگ اور ان سے مذاکرات ، عملی طور پر دونوں ہی ناکام ہو چکے ہیں اور اشرف غنی کے پاس طالبان سے مذاکرات اور ان سے صلح کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہ جاتا۔