الوقت - متحدہ عرب امارات، دنیا کا تیسرا اور ایک ایسا یک وتنہا ملک ہے جو گزشتہ دو عشروں کے دوران امریکا کے بین الاقوامی فوجی اتحاد میں شامل رہا ہے اور اس ملک نے ہتھیاروں کے بڑے بڑے سمجھوتے بھی کر رکھے ہیں جبکہ اس کو وجود میں آئے پچاس سال کا بھی عرصہ نہیں ہوا ہے۔
1971 میں چند قبائل کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کی بنیاد پر متحدہ عرب امارات کی تشکیل ہوئی اور گزشتہ 20 برس کے دوران یہ ملک مسلسل امریکا کے تمام فوجی اتحاد کا حصہ رہا ہے۔ ان جنگوں پر نظر ڈالنے سے جو امارات نے اپنی سرحدوں کے باہر لڑی ہیں اور دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کی، تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلیج فارس کے اس چھوٹا اور کم آبادی والا یہ ملک کون سے پالیسی اختیار کئے ہوئے؟ حالیہ کچھ برسوں خاص کر حالیہ کچھ عشروں کے دوران متحدہ عرب امارات نے اپنے ہتھیاروں کے ذخائر کو مضبوط کرنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کی اور اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلیج فارس کے اس ساحلی ملک کو کون کا خطرہ ستائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے وہ اربوں ڈالر کے ہتھیاروں کے سمجھوتے پر دستخط کرنے پر مجبور ہوا؟
امارات کے ہتھیاروں کی خریداری میں اضافہ
خلیج فارس تعاون کونسل کے چھ رکن ممالک میں سعودی عرب کے پاس سب سے مضبوط فضائیہ ہے اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر امارات ہے اور اس ملک کی فضائیہ تینوں فوج میں سب سے زیادہ مضبوط ہے۔
امارات نے جو ہتھیار خریدے ہیں اس کے اعداد و شمار پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ حالیہ دس برسوں میں امارات کے اسلحہ خریدنے کی سطح میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ امارات کے حکام میں پیشرفتہ ہتھیار خریدنے کی اتنا زیادہ حرص ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگلے کچھ پرسوں تک دنیا کے سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک میں سر فہرست رہے گا۔
1991 سے 2005 تک فوجی توسیع
امارات نے 1992 سے 436 فرانس کے لوکلیر ٹینک، 415 (BMP – 3) بکتر بند گاڑیاں، جی-6 کی 155 میلی میٹر والی توپیں درآمد کی ہیں اور وہ فوجی ساز و سامان میں توسیع کی کوشش میں ہے۔ اس نے کس خاص ملک کا خریدار بننے سے پرہیزکیا اور اس نے روس، امریکا، فرانس اور جرمنی سمیت متعدد ممالک سے مختلف ہتھیار خریدے ہیں۔ امارات نے ایک سال کے درمیان یعنی 2008 سے 2009 کے درمیان 30 اپاچی ہیلی کاپٹر خریدا۔
امریکا کے ایک سرکاری ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے 2005 سے لے کے 2009 کے درمیان خلیج فارس کے چھ ممالک سے پینٹاگن کی مدیریت میں 22 ارب ڈالر کی قیمت کا سمجھوتہ ہوا۔ ان سمجھوتوں سے آدھے سے زیادہ سمجھوتے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہوئے تھے۔ اسی طرح امریکا اور امارات نے 2009 میں ساڑھے چھ ارب ڈالر کے پیٹریاٹ میزائل کے سمجھوتے پر دستخط کئے ہیں۔
امریکا کی بدنام زمانہ پرائیوٹ سیکورٹی کمپنی بلیک واٹر نے امارات کے ساتھ 52 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے سمجھوتے پر دستخط کئے ہیں۔ اس وقت نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ متحدہ عرب امارات اس خفیہ فوج کے ذریعہ آئیل فیلڈ میں کام کرنے والے غیر ملکی ملازمین کی مخالفتوں کی اچھی طرح مقابلہ کر سکتا ہے اور دوسرے عرب ممالک میں ہونے والے مظاہروں کی سرکوبی کر سکتا ہے جن کا مقصد جمہوریت کے قیام کا مطالبہ ہو۔ اس طرح سے ابوظبی کی کمپنی نے 2011 میں امریکی کمپنی بلیک واٹر کے ساتھ خصوصی دستے تشکیل دیئے ہیں تاکہ عرب ممالک میں ہونے والے مظاہروں کی طرح ممکنہ طور پر ملک میں ہونے والے مظاہروں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اسی ہدف کے مدنظر بلیک واٹر نے صحرائے امارات میں بڑی چھاونیاں بنائی ہیں۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ وہ کمانڈر اور افسر جو بلیک واٹر کے رابطے میں ہیں، ان کو فوج میں اعلی عہدہ دیا گیا ہے۔
اسرائیل سے دوستی اور فلسطینیوں سے خیانت
امارات نے غزہ پٹی پر اسرائیل کے مسلسل حملوں کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھی اور اسی خاموشی کا راز اس وقت کھلا جب پتا چلا کہ غزہ پر اسرائیل کے حملے سے ایک مہینہ پہلے پیرس میں اس وقت سے اسرائیل کے وزیر جنگ اویگڈور لیبرمین نے عبد بن زائد سے خفیہ ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کا مقصد غزہ میں حماس کی تباہی کے منصوبے کا جایزہ لینا تھا۔ اس تناظر میں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر دیا اور امارات نے اپنے خفیہ ایجنٹوں کو ریسکیو کے لباس میں غزہ روانہ کر دیا تاکہ غزہ میں موجود فوجی سازو سامان کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں۔ در حقیقت امارات اور اسرائیل کے تعلقات برادرانہ ہیں اور یہی سبب ہے کہ امریکا اور امارات کے گرم تعلقات نے مشرق وسطی کے علاقے کے کچھ ممالک کو ناراض کر دیا ہے لیکن اسرائیل اور امریکا میں اس کے حامی، امارات کی فوج طاقت کو مضبوط کرنے کی کوشش میں ہیں اور انہوں نے اس کا مقصد عرب دنیا میں اسلامی رجحان رکھنے والوں کے پڑھتے ہوا اثر و رسوخ بتایا ہے۔