الوقت - سادھوی پراچی کا ،مسلم مکت بھارت، کا بیان تعصب اورعناد کے زہر میں بجھا ایسا احمقانہ بیان ہے جس کی مذمت کافی نہیں تھی۔ اچھا کیا جو چند جیالوں نے زبانی جواب دینے یا احتجاجی مظاھرہ کرنے سے بہتر یہ سمجھا کہ قانون کا راستہ اپنایا جائے اور اس اشتعال انگیز بیان کی بنیاد پر سادھوی کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے۔ یہ بہت موزوں قدم ہے۔
سادھوؤں کی طرح سادھویوں کی بھی منصبی ذمہ داری صرف اور صرف دھارمک ہوتی ہے لیکن ماضی کی ایسی ہی چند ایک سادھویوں کی طرح یہ سادھوی بھی دھرم کو چھوڑ سیاست کے گلیاروں کی سیر پر آ نکلی ہیں اور صرف سیر نہیں کر رہی ہیں، اپنے متنازع بیانات سے ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو مکدر کرنے پر بھی تلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “کانگریس مکت بھارت” کا مشن پورا ہونے کے بعد اب “مسلم مکت بھارت” کا مشن اپنایا جائے۔ یہ پتہ نہیں انہیں کس ،جانکار، نے بتا دیا کہ بھارت، کانگریس مکت ہو چکا ہے۔ انہیں چاہیئے کہ جانکاروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے خود بھی کوشش کریں اور جب سیاست سے اتنی دلچسپی ہے توسیاست کا ،گیان، بھی حاصل کریں۔ یہ گیان حاصل ہو جائے تو معلوم ہوگا کہ ،کانگریس مکت بھارت، بھگوا سپنا ضرور تھا لیکن نہ تو اب تک ساکار ہوا ہے نہ آئندہ ہو سکتا ہے۔
کانگریس جیسی بھی ہے لیکن ملک کی تاریخ یعنی ماضی سے وابستہ ہے اور مستقبل سے بھی وابستہ رہے گی کیوں کہ اس کے نظریات کی اہمیت ہے۔ اقتدار کے دور میں اس نے اپنے نظریات کو خود آلودہ کرکے بد ترین موقع پرستی کا مظاھرہ کیا اور اپنے زوال کی راہ ہموار کی۔ گزشتہ دو سال میں بھگوائیت کا دور دورہ ہوا تو وہ لوگ جو براہ راست متاثر تھے یعنی اقلیتیں، دلت، قبائلی عوام، وہ تو فکر مند ہوئے ہی، ملک کے اکثریتی طبقے کا بڑا حصہ بھی تشویش میں مبتلا ہوا کہ یہ نیا حاکم اور نئی حکمراں جماعت ملک کو نفرت کے کس ماحول میں دھکیل رہے ہیں،انہوں نے اس کے خلاف احتجاج شروع کیا جو دانشوروں اور مصنفوں کی ایوارڈ واپسی مہم کی شکل میں ظاھر ہوا۔ یہ در اصل طویل مزاحمت کی ابتدا تھی۔
اس کے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہے جو کبھی طلبہ کی تحریک کی شکل اختیار کرتا ہے تو کبھی فلم سازوں کی اور دیگر فنکاروں کے احتجاج کی صورت۔ ابھی دو روز قبل فلم سینسر بورڈ کے خلاف جو احتجاج ہوا ہے وہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب جب بھگوائیت اپنے مکروہ عزائم کے ساتھ ملک کو تقسیم کرنے کے درپے ہوگی، تب تب ان نظریات کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہوگی جو کانگریس کا اصل تعارف تھے اور صرف کانگریس ہی نہیں، ملک بھر میں پھیلی ہوئی درجنوں دیگر سیکولر پارٹیاں بھی جو کانگریس ہی کے نظریات کی توسیع ہیں، ابھی موجود ہیں اور سیاست میں پوری طرح فعال ہیں۔ سادھوی کو شاید اس کی خبر نہیں ہے۔
ایف آئی آر درج کرنے کے ساتھ ساتھ سادھوی پراچی کو یہ بتانے کی بھی ضرورت ہے کہ بھارت جب کانگریس ہی سے مکت نہیں ہوا ہے تو کانگریس جیسے سیکولر نظریات والی دیگر سیاسی پارٹیوں سے کب تک مکت ہو گا، اور جب ان پارٹیوں ہی سے مکت نہیں ہوا ہے تو ان کے 69 فیصد سیکولر ووٹروں سے کب مکت ہوگا؟ وہ ،مسلم مکت بھارت، کا سوچ رہی ہیں، انہیں اس سے پہلے کتنے کام ہیں!! حیرت ہے کہ سادھوی کی پشت پناہی کرنے والے اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں اور جو کہہ رہی ہیں وہ کتنا درست ہے۔ کیا یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ اس ملک میں فرقہ پرستوں کو صرف مسلمانوں سے نہیں، ملک کے ایک ایک سیکولر شہری سے لوہا لینا ہوگا اور سب مل کر یہ بہت بڑی طاقت ہیں جو بھگوائیوں کے کسی خواب کو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے، ان شاء اللہ!