الوقت - امریکا نے پاکستان کی سرزمین پر 2004 سے ڈرون حملے شروع کئے۔ یہ حملے جارج بوش کی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر شروع کئے۔ موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ان حملوں میں شدت آ گئی۔
بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زرداری کی حکومت میں اسلام آباد اور واشنگٹن میں خفیہ معاہدہ ہوا جس کے بعد ڈرون حملوں میں شدت آ گئی۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ حملے اس کی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ڈرون حملوں میں لا تعداد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی بین ایمرسن کی جانب سے تیار کردہ عبوری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس کے قبائلی علاقوں میں 2004 سے 330 ڈرون حملے ہو چکے ہیں جن میں 2200 افراد مارے گئے جن میں کم ازکم 400 عام شہری بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی تحقیق سے البتہ اتنا ضرور واضح ہے کہ پاکستان میں سن 2004 کے بعد سے جو تین ہزار سے زائد انسان ڈرون حملوں میں مارے گئے، ان میں سے 80 فیصد متاثرین عام شہری تھے جبکہ صرف چار فیصد کا تعلق القاعدہ سے قریبی وابستگی رکھنے والے افراد سے تھا۔ جہاں ایک طرف امریکی ڈرون حملے میں بڑی تعداد میں افراد ہلاک ہو رہے ہیں وہی مغربی ذرائع ابلاغ مارے جانے والوں کی شہریت اور نسل سے مطابق ڈرون حملوں کی خبروں کو اہمیت دیتا ہے۔ تجزیہ نگارں کا کہنا ہے کہ امریکا نے 2010 میں سب سے زیادہ ڈرون حملے کئے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے ہے 2010 میں امریکی ڈرون حملوں میں 900 افراد ہلاک ہوئے۔ 2011 میں پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے امریکا سے ڈرون حملے بند کرنے کی درخواست کی۔ طبی ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکی ڈرون کے ذریعے کیمیائی ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ امریکی ڈرون صرف اپنے اہداف کو ہی نشانہ نہیں بناتا تھا بلکہ حملے کے بعد ہلاکتوں کی جو افراد لاشوں کو جمع کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں یا تشیع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں ان پر بھی ڈرون سے حملہ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر ڈرون حملوں کی ذمہ داری سی آئی اے کے ایجنٹوں پر ہوتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ڈرون پروگرام سے متعلق پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دور اقتدار میں امریکی انتظامیہ کو عدالتی کاروائیوں اور بین الاقوامی قوانین سے چھوٹ دے رکھی تھی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام، ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر جواب دہ ہیں۔
" ول آئی بی نیکسٹ؟ یو ایس ڈرون اسٹرائیکس ان پاکستان" کے عنوان سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ موصولہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ امریکا ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان میں ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے جبکہ بعض واقعے جنگی جرائم تک شمار ہوتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا ان حملوں میں دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعوی تو کرتا ہے تاہم تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ان حملوں میں مارے جانے والے کسی لڑائی میں شریک نہیں تھے اور نہ ہی ان سے کسی کی جان کو خطرہ تھا۔ رپورٹ میں تاکید کی گئی کہ ہلاکتوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔
انسانی حقوق کی مقامی تنظیم فاونڈیشن فار فنڈا مینٹل رائٹس کے ڈایکٹر مرزا شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں سے مسلح ڈرونز کے استعمال کی مخالفت میں اضافے سے ہو سکتا ہے کہ اس طرح سے حملے بند ہو جائیں۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کا یہ خیال ہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں القاعدہ سے وابستہ طالبان نے محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں جہاں سے وہ سرحد پار امریکی اور اتحادی افواج کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان کے رہائشی امریکی ڈرون حملوں کے خطرے کے علاوہ مسلح گروہوں اور پاکستانی سیکورٹی فورس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کا شکار بھی ہوتے ہیں اور مقامی آبادی مسلسل خوف و ہراس میں رہتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے دہشت گردوں کی موجودگی میں یہاں کے مقامی افراد کو اپنے علاقوں پر اختیار صرف نام کا ہی ہوتا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ پاکستان کی حکومت اورعوام ڈرون حملوں کی مسلسل مخالفت کرتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے جاری رہنے سے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو رای عامہ کا جواب دینے کے حلاف سے سخت حالات کا سامنا ہے۔ یہ حملے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں جس کو امریکا نظر انداز کر رہا ہے اور اس کی نظر میں پاکستانی عوام کی جان کی کوئي قیمت نہيں ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈرون حملوں کو رکوا دیں گے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے حساب سے کوشش تو بہت کر لی اور مسئلہ ان کے اختیار سے نکل چکا ہے۔ پاکستان کو اس وقت دو اہم مسائل کا سامنا ہے، پہلا مسئلہ فرقہ پرست اور دہشت گردی اور دوسرا مسئلہ امریکی ڈرون حملہ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت ڈرون حملے کے معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے لیکن امریکا کی بے توجہی بھی قابل غور ہے۔ امریکا، پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالتا رہتا ہے۔ امریکا کے سیاسی اور سیکورٹی حکام پاکستان پر مسلح افراد کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہیں ، یہ صرف اور صرف پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا حربہ ہے۔ دباؤ سے کبھی بھی فریق مقابل کا اعتماد حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اس کے اعتمادی کی قیمت عوام ادا کر رہے ہیں۔