الوقت - یوروپ کے مفکر الن ڈی باٹن مغرب میں حاوی فلسفہ انتزاعی یا ایبسٹریکٹ فلاسفی(جس میں کسی چیز کا وجود ذہنی ہو خارجی نہ ہو) کے ماحول سے الگ ہٹ کر ایک ایسا راستہ اختیار کرتے ہیں جسے ان سے پہلے بہت سے فلسفی اختیار کر چکے ہیں، انہیں میں سے ایک شوپنہاور بھی ہیں۔ اس راستے کو اختیار کرنے کے پیچھے ان کا مقصد فلسفہ کو روزمرہ کی زندگی میں شامل کرنا ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے رواقیین یا دوسرے لفظوں میں افلاطون کے عارفانہ نظریہ کے حامی فلسفی اچھی طرح انجام دے چکے ہیں۔ ڈی باٹن اپنی کتاب “مشاہدہ و ادراک” میں اڈورڈ ہاپر کی نقاشی سے ایک مفہوم پیش کرتے ہوئے اسے “برزخی حالت” کہتے ہیں۔ برزخی حالت کی کئی خصوصیات ہیں۔ جس کی ایک اہم خصوصیت اس کا عارضی ہونا ہے۔ جس میں مستقبل کی امید شک وخوف سے بھری ہوتی ہے۔
عراق کے کرد برسوں سے ایک موضوع کو بہانہ بنا کرعراقی پرچم کے سایے سے خود کو نکالنے کی کوشش میں ہیں۔ اس حالت سے نکالنے کے لئے انہوں نے کچھ حد تک کوشش بھی کی ہے۔ وہ عراق سے آزاد ہونے کی بات کرتے ہیں۔ یعنی ڈی باٹن کے مد نظر برزخی ماحول سے باہر نکلنا چاہتے ہیں کہ جس میں موجودہ حالت سے باہر نکلنے کے تعلق سے شک کے شکار ہیں۔ یہ بات صاف طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ وہ ایسے مستقبل کی طرف جا رہے ہیں جو ان کے لئے جنت کے مثل ہوگا یا وہ نئی حکومت کے سبب وجود میں آنے والی خونی جنگوں کی دوزخ نما آگ میں جل کر خاک ہو جا ئیں گے۔ جیسا کے اس حوالے سے ریچرڈ ٹیلی کا ایک قول ہے کہ حکومتیں جنگ و جدل سے وجود میں آتی ہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔
عراق کے کردستان علاقے کی برزخی یا عبوری حالت ہمیشہ ایسی نہیں رہے گی کیونکہ ایک نہ ایک دن یہ فیصلہ عملی شکل اختیار کرے گا۔ سیاستداں، سیاسی پارٹیاں اور علاقائی دھڑے اس دوزخ کی طرف لوٹنے کہ جس کی آگ کردوں کے دامن کو جلا دے گی یا اس بہشت کی طرف جانے کے بارے میں فیصلہ کرییں گے جس کے بارے میں کرد سیاسی رہنماء بات کرتے ہیں۔ یہ عبوری فضا عارضی ہے کیونکہ عراقی کرد یا عراق کے کردستان علاقے کی حکومت خطے کی دوسری حکومتوں کی طرح جو ان حالات سے گزر چکی ہیں، ایک نہ ایک دن اس حالت سے باہر نکلنے کا حتمی فیصلہ کرے گی یہ الگ بات ہے کہ خطے کی دوسری حکومتیں اپنے اس طرح کے فیصلے کے سبب ناکام حکومت ثابت ہوئیں۔ یہ سوال کہ مستقبل کی حکومت ویسی ہی مثالی ہوگی جس کے بارے میں سیاسی رہنما کہہ رہے ہیں یا اس جہنم کی مانند ہوگی جس کی منظر کشی کردوں کے رقیب کر رہے ہیں، اس سوال کا جواب عراق سمیت مشرق وسطی کے مستقبل کے حادثات کے حوالے کردینا چاہیئے، ایسے حادثات جس کے بارے میں پہلے سے کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
ساتھ ہی مستقبل کے تعلق سے کردوں کی امید بھری نگاہوں میں دائمی خوف بھی دکھائی دے رہا ہے۔ یہ خوف داخلی حالات اور سیاسی، اقتصادی و معاشرتی مشکلات سے متعلق ہے۔ یہ خوف پارٹی کے اندر رقابت اور مستقبل کی تعمیر کے لئے ذھنی پختگی کے فقدان سے متعلق ہے۔ ایسا مستقبل جس کا وجود ابھی مبہم ہے۔ یہ خوف و شک عراق اور اس کے پڑوسی ملکوں کی داخلی طاقتوں کے عمل و رد عمل سے متعلق ہے جوعراق کے کردستان علاقے کی ممکنہ آزادی کو مشکوک اور خطرناک نظروں سے دیکھتی ہیں۔ یہ چیز کردستان کے اندر دھڑوں کے درمیان آپسی کشمکش کا سبب بن سکتی ہے کہ جس سے اشارہ پا کر خطے کی حکومتیں کردوں کی اپنی الگ حکومت بنانے کی امید کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کریں یا خود کرد داخلی حالات اور اس کے سامنے موجود مشکلات جیسے قیادت، سیاسی بد عنوانی، سماجی دباو یا دراز مدت خانہ جنگی کے خطرے کے تعلق سے خوف محسوس کریں لیکن مستقبل کے تعلق سے امید جوکھم اٹھانے کے اصول پر منحصر ہے بالکل مذہبی معاملوں کی طرح کہ جس کی طرف پاسکل نے اشارہ کیا ہے کہ مذھبی معاملے ایمان کی شرط پر منحصر ہیں کیونکہ مستقبل کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔
عراق کے کردستان کی عوام اور سیاسی رہنما سب کے سب ڈی باٹن کے مد نظر برزخی ماحول میں جی رہے ہیں کہ جس سے باہر نکلنے کی پہلی شرط امید اور خوف کے تناسب کا علم ہے۔ ان کے پاس محدود متبادل ہیں لیکن یہ متبادل بہت ہی فیصلہ کن ہیں کہ ان میں سے جس کا انتخاب ہوگا اسی کی سمت ان کا مستقبل ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل اس مرحلے میں پہنچ گیا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ یہ مبہم مستقبل ایسی پہیلی ہے جس کے بارے میں سیاسی تجزیہ نگار و بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین تاریخی عمل کی بنیاد پرکوئی اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ اس خطے کے حادثات سبھی عمل اور فیصلوں پر ہمیشہ اثر انداز ہوتے ہیں۔