الوقت - شام کی فرنٹ لائن پر امریکی کمانڈر داعش کے موجودہ دار الحکومت رقہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن عراق کی کچھ الگ ہی کہانی ہے۔ امریکا نے نہیں بلکہ ایران نے فلوجہ کی آزادی اور داعش کے مضبوط گڑھ کو فتح کرنے کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے لکھتا ہے کہ شام کی فرنٹ لائن پر امریکی کمانڈر داعش کے موجودہ دار الحکومت رقہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن عراق کی کچھ الگ ہی کہانی ہے۔ امریکا نے نہیں بلکہ ایران نے فلوجہ کی آزادی اور داعش کے مضبوط گڑھ کو فتح کرنے کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ یہ امریکی اخبار آگے لکھتا ہے کہ فلوجہ کے باہری علاقے میں ہزاروں عراقی فوجی، پولیس اہلکار اور نیم فوجی دستے ایران کی حمایت میں فلوجہ پر حملے کے لئے تیار ہیں۔ ایران نے جنرل قاسم سلیمانی سمیت اپنے اعلی فوجی مشیروں کو خود میدان جنگ میں ان کی مدد کے لئے بھیجا ہے۔ فلوجہ کی جنگ نے ایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے عراق میں ایران اور امریکا کے متضاد اشتراک اور منافع کا مظاہرہ کیا۔ دونوں ہی داعش کو کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ داعش کے جنگ عراق اور شام دونوں ہی ملک میں جاری ہے اور امریکا ان دونوں میں کود پڑا ہے۔ شام میں امریکا کی دشمن بشار اسد کی حکومت ہے جبکہ کرد اس کے اتحادی ہیں لیکن عراق میں امریکا دولت مرکزی کی ایک حد تک حمایت کرتا ہے اور اس کی فوج کو ٹریننگ دیتا ہے اور ان کو مشورے دیتا ہے لیکن ایران کی موجودگي نے امریکا کے کردار کو محدود کر دیا جو اس ملک میں سب سے بڑی غیر ملکی انسانی طاقت رکھتا ہے۔ پہلے سے ہی پتا تھا کہ امریکا فلوجہ میں جنگ میں اضافے سے مشکوک تھا۔ رپورٹوں میں پتا چلا کہ فلوجہ میں دسیوں ہزار سنیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ غذاوں اور دواؤں میں کمی کی وجہ سے موت اور زندگی کے درمیان کشمکش کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اگر کسی نے داعش کے چنگل سے فرار ہونے کی کوشش بھی کی تو انھیں گولی کھا کر موت کی آغوش میں سونا پڑا۔ جیسا کے اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ان سے بہت سے افراد مسلح افراد کی فائرنگ اور توپخانوں کی زد میں آنے کے بعد دنیا سے چلے گئے۔ ان سے کچھ تو خود کو محفوظ مقامات تک پہنچانے میں کامیاب رہے، رات کے وقت فرار کرنے میں کامیاب رہے اور گٹر کے راستے نکلنے میں کامیاب رہے۔ عراق کے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے بدھ کو ایک بیان میں فوج اور رضاکار فورس کے جوانوں سے مطالبہ کیا ہے وہ انتہا پسندی سے پرہيز کریں اور جہاد کے صحیح اصولوں کی پابندی کریں۔
عراق میں امریکا کے ہزاروں فوجی ہیں جنہوں نے تقریبا دو برس تک عراقی فوجیوں کو ٹریننگ دی، ان سب کے باوجود فلوجہ کی آزادی کی مہم میں مکمل طور پر حاشیہ پر لگ گئے ہیں۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ ان کے فضائی اور توپخانے کے حملوں میں دسیوں داعش کے دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ عراق کی رضاکار فورس نے اپنے توپخانوں کے گولوں پر سعودی عرب کے مشہور شیعہ عالم دین شیخ باقر النمر کا نام لکھ کر جن کو آل سعود حکومت نے تختہ دار پر چڑھا دیا تھا، فلوجہ کی جانب فائر کیا۔ فلوجہ سے ہی دار الحکومت بغداد میں ہونے والے خودکش حملہ آور آتے ہیں۔ یہ شہر بغداد سے 64 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بغداد پر ہونے والی شدید حملوں اور ان حملوں میں دو سو سے زائد افراد جاں بحق ہونے کے بعد فلوجہ پر حملے کا فیصلہ کیا گیا۔ بہرحال عراقی فوج ایک بہت بڑی کامیابی سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ عراقی وزیراعظم حیدر العبادی سمیت اس ملک کے حکام اور فوجی کمانڈر کا کہنا ہے کہ جنگ کا نقشہ ایسے تیار کیا گیا ہے کہ رضاکارفورس شہر پر حملے میں شرکت نہ کرے۔ اگر رضاکارفورس اس وعدے سے پسپائی اختیار کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ امریکا اپنے فضائی حملے تیز کر دے اور وہی ہو جو گزشتہ سال صوبہ الانبار کی آزادی کے آپریشن میں ہوا تھا۔