الوقت - شام کے بحران کے سلسلے میں گزشتہ منگل کو ، ویانا میں ایک بین الاقوامی نشست کا انعقاد ہوا جس میں ایران سمیت دنیا کے بیس ملکوں نے حصہ لیا۔ ایران ، امریکہ ، جرمنی ، روس ، فرانس ، سعودی عرب ، برطانیہ ، آسٹریلیا ، ترکی ، اٹلی ، عمان کے وزیر خارجہ ، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی ذمہ دار فیڈریکا موگرینی ، شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن دی میستورا اور عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نبیل العربی ، اس یک روزہ نشست کے شرکاء میں شامل تھے ۔
اجلاس کے بعد شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن دی میستورا نے صحافیوں کے ساتھ ایک گفتگو میں کہا کہ اگلی نشست کے لئے ابھی تاریخ کا تعین نہيں ہوا ہے ۔ اجلاس کے بعد امریکی وزير خارجہ جان کیری نے کہا کہ ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ شام میں تشدد میں کمی اور تمام فریقوں کے درمیان مذاکرات کے لئے تاریخ کا تعین ممکن ہے اور اس نشست سے بحران کے خاتمے اور داعش کے خلاف جنگ کی اہمیت واضح ہو گئي ۔ واضح رہے کہ جان کیری نے یک روزہ اجلاس کے اختتامی بیان کو پڑھتے وقت ، شام میں سرگرم کچھ دہشت گرد گروہوں کو میانہ رو کہتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد داعش اور اس سے جیسے دہشت گرد گروہوں سے اپنا رابطہ ختم کر لیں ۔
در ایں اثنا روسی وزیر خارجہ نے امریکہ اور دہشت گردوں کے دیگر تمام حامیوں سے مطابلہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں ۔ سرگئی لاؤروف نے جان کیری اور اسٹیفن دی میستورا کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ شام میں امریکی حمایت یافتہ مخالفین اور مسلح گروہوں کو جنگ بندی کی پابندی کرنی چاہئے ۔ انہوں نے بتایا کہ نشست میں جنگ بندی کی پابندی اور عوام تک امداد کی ترسیل جیسے امور پر خاص طور پر تاکید کی گئي تاہم پائدار امن کے لئے ، تمام فریقوں کی جانب سے جنگ بندی کی پابندی ضروری ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ روس اور امریکہ ایک ایسا دستاویز تیار کر رہے ہيں جس کی بناء پر امن کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکے تاہم مغرب والے نے اب تک جو وعدے کئے ہيں ان پر عمل نہيں کیا ہے ۔
اس اجلاس میں شرکت کے لئے ویانا پہنچنے پر اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ ڈاکٹر ظریف نے کہا کہ شام میں سرگرم دہشت گردوں سے ، پورے شام ، پورے علاقے اور پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہے اس لئے ان دہشت گرد تنظيموں کا قلعہ قمع کیے جانے اور جنگ بندی کو ، شہریوں پر حملے کے لئے استعمال کئے جانے کے عمل کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے شام کے بحران پر مذاکرات و اجلاس کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بحران کے آغاز سے ہی اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ شام کے بحران کا فوجی حل ممکن نہيں ہے ۔
وزير خارجہ محمد جواد ظریف نے منگل کو ویانا میں اجلاس کے اختتام پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم ہے کہ اس اجلاس میں حصہ لینے والے کچھ فریق جو دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں، اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ شام کے بحران کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور دہشت گردوں کی حمایت سب کے لئے، یہاں تک کہ خود ان کے لئے بھی ایک خطرہ ہے. انہوں نے کہا کہ ویانا کی نشست میں جو کچھ کہا گیا، ان میں سے بہت سی باتیں پچھلی نشستوں کے بیانوں میں بھی کہی جا چکی ہیں جن کے مطابق سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے عزم، فوجی حل کے خیال کو ذہن سے نکالنا اور دہشت گردوں کی حمایت بند کرنا ضروری ہے.ایران کے وزیر خارجہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ویانا اجلاس میں انہوں نے ایک بار پھر شام کے بحران کا سیاسی حل تلاش کئے جانے سے متعلق اپنا خیال پیش کیا، کہا کہ اس اجلاس میں تمام فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شام میں شہریوں تک امداد رسانی اور جنگ زدہ علاقوں میں شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کی کوشش انتہائي ضروری ہے ۔