الوقت - امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ، شام میں اپنے فوجیوں کو تعینات نہیں کرے گا اور شام کے بحران کو صرف فوجی طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔
اتوار کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ امریکہ یا برطانیہ بشار اسد کی حکومت کے تختہ پلٹنے کے لئے اگر فوجی بھیجتے ہیں، تو یہ ایک غلطی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی قیادت میں داعش مخالف اتحاد شام میں اپنے ہوائی حملے جاری رکھے گا۔
امریکی صدر نے ذکر کیا کہ امریکی اتحاد، شام کے ان علاقوں کا محاصرہ جاری رکھے گا، جہاں سے دہشت گردوں کو یورپ بھیجا جاتا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ان کے دور حکومت کے اختتام تک داعش کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اوباما کی حکومت کو نو مہینے باقی ہیں۔ برطانیہ کے تین روزہ دورے پر گئے امریکی صدر نے خبردار کیا ہے کہ اگر برطانیہ نے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں جون میں ہونے والے ریفرنڈم میں ووٹ دیا تو اسے امریکا سے تجارتی مذاکرات سے دس سال کا عرصہ لگے گا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اعلان کیا ہے کہ اگر برطانیہ یورپی یونین سے نکل جائے گا تو اسے امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ باراک اوباما نے برطانیہ کے دورے کے اختتام پر ایک انٹرویو میں خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکل جانے کی صورت میں تقریبا 5 سے 10 سال کا وقت لگے گا تب کہیں برطانیہ امریکہ کے ساتھ اپنے مؤثر تجارتی تعلقات کو دوبارہ شروع کر سکے گا ۔ اوباما نے زور دے کر کہا کہ حکومت لندن کو اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ یورپی یونین سے پہلے تجارت کے سلسلے میں امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ کر لے گی۔ اوباما نے کہا کہ امریکا اپنے سب سے بڑے تاجر شریک یورپی یونین کے ساتھ ایک معاہدے تک رسائی کے لئے کوشش جاری رکھے گا۔
امریکا کے صدر باراک اوباما کا یہ بیان ان کے اس بیان کے ایک دن بعد سامنے آ یا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکل جانے کی صورت میں وہ امریکا کے ساتھ تجارت کرنے والوں کی صف میں سب سے آخر میں ہو گا۔ باراک اوباما نے 22 اپریل کو برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ مشترکہ پریس كانفرنس میں بھی کہا تھا کہ یورپی یونین میں برطانیہ کی رکنیت اس ملک کی حفاظت اور بہبود کو مضبوط کرتی ہے۔
اوباما نے اسی طرح کہا تھا کہ برطانیہ کے لئے بہترین انتخاب یورپی یونین کی رکنیت کو جاری رکھنا ہے۔ امریکہ کے صدر نے اسی طرح کہا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے نکل جانے سے اس ملک کی طاقت کم ہو جائے گی اور اس سے برطانیہ کے تجارتی تعلقات اور روزگار کے موقع پیدا کرنے کو کاری ضرب لگے گي۔ اوباما نے اسی طرح کہا تھا کہ یورپی یونین کا رکن بنے رہنے سے برطانیہ دنیا کے محاذ پر ایک مؤثر ملک میں تبدیل ہو جائے گا اور امریکا کے ساتھ اس کے خاص تجارتی تعلقات مضبوط ہوں گے۔
بہر حال مبصرین کا خیال ہے کہ باراک اوباما کے دورہ لندن کا اصل مقصد برطانیہ کو یورپی یونین سے نہ نکلنے کے لئے یقین دہانی کرانا ہے جبکہ مختلف حلقوں میں ان کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ لندن کے میئر نے باراک اوباما کے بیان کو منافقت سے بھرا بیان قرار دیا ہے۔ بورس جانسن نے کہا ہے کہ امریکا یورپی یونین کا رکن نہیں ہے لیکن اوباما برطانیہ کے شہریوں سے چاہتے ہیں کہ وہ اپنے قوانین، خود مختاری اور ڈیموکریسی کو یورپی یونین کی رکنیت پر قربان کر دیں۔