الوقت - ایک تجزیاتی ویب سایٹ ہیل نے لکھا ہے کہ علاقائی اور عالمی تبدیلیوں کی وجہ سے ایران اور سعودی عرب اپنے دو طرفہ تعلقات کو بہتر کرنے میں دلچسپی دکھانے لگے ہيں۔
یوئل گوزانسکی نے ہیل ویب سایٹ پر اپنے مقالے میں اس بات کا دعوی کیا ہے۔ یوئل گوزانسکی اسٹنفورڈ یونیورسٹی کے ہوور ادارے کے رکن ہیں۔ انہوں نے ایران کے صدر ممالک ڈاکٹر حسن روحانی کے حالیہ علاقائی دورے، اوپک میں تیل کی پیداوار کی سطح پر دونوں فریق کی مفاہمت اور ایرانی حاجیوں کو حج اور عمرہ کے لئے بھیجنے پر ہونے والی مفاہمت کی جانب اشارہ کیا ہے۔
گوزانسکی لکھتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں اس بات کی علامت ہیں کہ ایران اور سعودی عرب، ایک مثبت علاقائی حالات پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تجزیہ نگار نے اس بابت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ یہ عمل کچھ عرصہ پہلے شروع ہوا ہے، لکھا کہ علاقائی اور عالمی تبدیلیوں نے سعودی عرب اور ایران کو گفتگو شروع کرنے کا جائزہ لینے پر دلچسپی پیدا کر دی ہے۔
گوزانسکی نے عراق اور شام میں ایران کی وفادار فوجوں کے طاقتور ہونے اور لبنان کو سعودی عرب کے لئے بڑی تشویش قرار دیا اور لکھا کہ اس کے علاوہ یمن میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں سعودی عرب کی ناکامی، وہ بھی تقریبا دو سال بعد بھی، اس ملک کے فیصلے پر اثر انداز ہوا ہے۔
گوزانسکی لکھتے ہیں کہ ان سب سے اہم یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب یہ سمجھ گیا ہے کہ شام میں ایران کی موجودگی کو باضابطہ قبول کر لے گا۔ خاص طور پر حالیہ مہینوں میں شامی فوج کی کامیابیوں کی وجہ سے مصر، ترکی اور اردن جیسے سعودی عرب کے اتحادیوں نے شام کے تعلق سے اپنے لہجے تبدیل کر دیئے ہیں.