الوقت - سعودی عرب کے حکام، ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے لئے نیٹو کی طرح عربوں کے نام نہاد اتحاد کی تشکیل کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف ممکنہ طور پر تشکیل پانے والے اس اتحاد کو عرب نیٹو کا نام دیا گیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے لئے مشرق وسطی کے علاقائی نظام میں ایران پر کنٹرول اور امریکا کی سربراہی میں دہشت گردی سے مقابلے کے لئے اسلامی ممالک کی پراکندہ کوششوں کو ہماہنگ کرنا بھی بہت ہی اہمیت کے حامل موضوع ہیں۔ اس منصوبے پر عمل پیرا ہوکر سعودی عرب ایک نام نہاد اتحاد تشکیل دے کر دہشت گردی سے پیدا ہونےوالے عناصر کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے میں اہم کردار کا حامل ملک بن سکتا ہے اور سلمان بن عبد العزیز کے ان علاقائی دوروں کو اس آب و تاب سے پیش کیا جانا اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان کا مشرقی ایشیا کے ممالک کا دورہ، ریاض کی تاریخ میں بے نظیر اور سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ موجودہ حالات میں سعودی حکام کے علاقائی دوروں کے کیا اہداف ہیں؟ خاص طور پر سعودی فرمانروا کے علاقائی ممالک کے دورے سے پہلے سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے عراق کا اچانک دورہ کیا، یہ دورہ بھی خود میں بے نظیر تھا کہ سعودی عرب کےوزیر خارجہ نے 27 سال بعد عراق کا دورہ کیا۔
اس سوال کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دورے علاقے میں سعودی عرب کے نئے کردار کے تناظر میں انجام پا رہے ہیں جن کے دو پہلے ہیں اقتصادی اور سیاسی۔ اقتصادی اہداف کسی حد تک سعودی عرب کے سیاسی اہداف کو پورا کریں گے۔ گزشتہ سال سعودی عرب نے دہشت گردی سے مقابلے کے لئے اسلامی ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تھا، تب سے لے کر اب تک اس اتحاد میں 41 ممالک شامل ہو چکے ہیں جبکہ انڈونیشیا، برونئی اور عراق ابھی تک اس اتحاد میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ در اصل ان ہی تین ممالک کے دورے شاہ سلمان اور عادل الجبیر نے کئے تاکہ ان تینوں ممالک کے حکام کو اتحاد میں شامل کرنے کی ترغیب دلا سکیں۔
سعودی عرب کے حکام کا دوسرا ہدف جنوب مشرقی ایشیا خاص طور پر ملائیشیا، انڈونیشیا، جاپان اور چین کے سرمایہ کاروں کو سعودی عرب کی تیل کمپنی آرامکو کے پانچ فیصد شیئر خریدنے کے لئے ترغیب دلانا ہے۔ سعودی عرب کے حکام اس کمپنی کے شیئر فروخت کرکے اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک کے اقتصادی اہداف اور علاقائی اور داخلی سیاست کو آگے بڑھا سکیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2017 میں سعودی عرب کو 100 ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سعودی عرب محمد بن سلمان کی سربراہی میں تین اصل اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے:
1 - امریکا کی جانب سے سیکورٹی خرچہ پورا کرنا جس کے بارے میں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں، اسی کے ساتھ خلیج فارس میں علاقائی نیٹو کے دفاتر میں توسیع بھی ہوگی۔
2 - ایران اور اس کے اتحادیوں پر شام اور خاص طور پر یمن میں علاقائی دباؤ ڈالنا۔
3 - شام میں محفوظ علاقے کا قیام جس کے بارے میں امریکا کے صدر نے شام کے سیاسی مذاکرات کے شروع ہونے وقت کہا تھا۔
بہرحال مشرقی ایشیا کے ممالک کو آرامکو کے شیئر خریدنے کے لئے آمادہ کرکے شاہ سلمان علاقے میں سعودی عرب کے سیاسی اور فوجی اہداف کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔