الوقت - الوقت تجزیاتی سینٹر میں ایک خصوصی اجلاس کا انعقاد ہوا جس کا عنوان تھا موصول کی آزادی کے بعد عراق کا مستقبل۔ اس اجلاس میں عراق میں ایران کے سابق سفیر جناب حسن کاظمی قمی اور تہران یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم متقی نے اس موضوع پر اپنے نظریات بیان کئے اور سیر حاصل تبصرے کئے۔
جناب کاظمی قمی نے اپنے بیان میں موصل کی آزادی کی راہ میں پیش آنے والی دشواریوں اور اس آپریشن کی خصوصیات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اس آپریشن کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہے :
پہلی خصوصیت : موصل سٹی کی آزادی کا آپریشن دوسرے آپریشنز کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے۔ اس آپریشن میں چودہ ہزار کیلومیٹر کے رقبے کے آزاد ہونے کی امید ہے۔
دوسری خصوصیت : علاقہ کی جغرافیائی حالت ہے جو بہت ہی حساس ہے۔ اس علاقے میں داعش کافی عرصے سے مقیم ہے اسی کے پیش نظر وہ دفاعی لحاظ سے بہت مضبوط ہو گیا ہے جس سے فوج کی پیشرفت میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے تاہم فوج کی پیشرفت آہستہ ہوگئی ہے۔
تیسری خصوصیت : انسانی قوت میں کمی ہے۔ داعشی موصل سٹی کی آبادی کے مد نظر وہاں کے مقامی افراد کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے فوج کی پیشرفت کافی کند ہو گئی ہے۔ اس شہر کی آبادی بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے فوج کو اپنے آپریشن کی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑی ہے۔ اس بنا پر دوسری فوجیں آسانی سے موصل میں داخل نہیں ہو سکتیں اور توپ کے دھانے عوام پر کھول دیں۔ فوج کی تمام یونٹ یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس آپریشن میں کم از کم انسانی جان کا ضیاع ہو۔
چوتھی خصوصیت : موصل سٹی کے آپریشن کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس آپریشن میں شریک ہونے والے تمام عراقی سیکورٹی اہلکار ہی ہیں۔ اس لئے یہ آپریشن اس لحاظ سے بے نظیر ہے۔ اس آپریشن میں پولیس فورس، پولیس اہلکار، انسداد دہشت گردی ٹیم، رضاکار فورس، کرد اور شیعہ قبائل خاص طور پر شریک ہیں۔ اس آپریشن کے کمانڈرز اور فوجی تمام عراقی ہی ہیں۔ اس آپریشن کے آغاز سے ہی یہ اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ اس زمینی آپریشن میں غیر ملکی فوجیوں کی مشارکت ضروری نہیں ہے۔
عراق میں ایران کے سابق سفیر کا کہنا تھا کہ موصل آپریشن کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے عراق میں امن قائم ہو جائے اور موصل کی آزادی کے بعد اس ملک کا مستقبل اس طرح ترسیم ہوگا، ملک میں نا امنی بدستور جاری رہے گی لیکن خطرناک اور وحشیانہ کاروائی کی جگہ چھوٹی موٹی کاروائی ہوگی۔ اس آپریشن کے اثرات علاقے پر مرتب ہوں گے اور علاقے میں افراتفری اور عدم استحکام میں اضافہ ہوگا جس سے امریکا اور سعودی عرب کے من کی مراد پوری ہو جائے۔ سعودی عرب کی مشکل صرف ایران نہیں ہے، اسی بنا پر موصل کی آزادی کے بعد عراق میں نا امنی کا سلسلہ بدستور جار رہے گا لیکن فوج کی پکڑ بھی ملک میں اچھی خاصی ہو جائے گی۔ امریکی اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کے عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت اپنا کام آسانی سے انجام دے سکے البتہ داعش سے مقابلے کی مہم میں عراقی فوج کو مہارت حاصل ہو جائے گی اور علاقے کی ایک تجربہ کار فوج بن کر سامنے آئے گی۔ یہ کام آسانی سے انجام نہیں پائے گا۔ سعودی عرب اور قطر کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت جاری رہے گی۔ بہرحال عراق میں موصل سٹی کے بعد ابھی ملک کا مستقبل معین کرنا آسان نہیں ہے تاہم عراق میں کسی حد تک امن کی امید کی جا سکتی ہے۔