الوقت - امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے اور پوتین کے ساتھ تعلقات میں بحالی کی ان کی دلچسپی کی وجہ سے بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ بحران شام کے حتمی حل کا مقدمہ ہے لیکن اگر اس موضوع پر دقیق نظر ڈالی جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علاقے کی باہر کی یہ دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان کس حد تک اتفاق ہو جائے کہ شام کا بحران حل ہو سکے؟
اگرچہ بحران کے حل کے لئے امریکا اور روس کے درمیان ہماہنگی بہت اہم تصور کی جاتی ہے لیکن حققیت یہ ہے کہ فریقن کے درمیان ہونے والا کوئی بھی معاہدہ، کم مدت میں یا زیادہ عرصے میں شام میں امن و استحکام کو بحال کرنے میں کامیاب ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے کچھ اسبات مندرجہ ذیل ذکر کئے جا رہے ہيں۔
1 - امریکا اور روس میں بحران شام کے آغاز سے ہی شدید اسٹرٹیجک اختلافات پائے جاتے رہے ہیں۔ اس طرح سے دونوں ہی ممالک نے شام کے تعلق سے الگ حکمت عملی اختیار کی ہے۔ جہاں امریکا نے شام مخالف عناصر اور دہشت گردوں کی حمایت کی ہے وہیں روس نے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی ہے۔ دونوں ممالک کی حکمت عملی میں شدید اختلافات کی وجہ سے بحران شام مزید پيچیدہ ہو گیا جس سے اس ملک میں بحران کے خاتمے کا راستہ کافی طولانی ہو گیا۔ تجزیہ نگارں کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان اسی طرح اختلافات جاری رہے تو ان کے درمیان ہوا معاہدہ بھی ٹوٹ جائے گا۔
2 - شام کے بارے میں امریکا اور روس کے درمیان ہونے والے معاہدے کی ناکامی کا اصلی سبب شام کے آئندہ سیاسی نظام کی تشکل میں میکنیزم کو نظر انداز کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجود صورتحال میں ارضی سالمیت پر مبنی سیاسی نظام کی تشکیل، بحران کے وسیع ہونے کی وجہ سے ناکام ہو گیا ہے۔ شام میں نئی حکومت کی تشکیل اور ملک کے وسیع بحران کے خاتمے کے لئے شام کے تمام سیاسی گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ضروری ہے اور یہ شام کے بحران کے حل کے لئے پیشگی شرط ہو سکتی ہے تاہم جو ظاہر ہے اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ اور پوتین کے درمیان اپنے مد نظر شام کے آئندہ سیاسی نظام کے تعلق سے بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔
3 - بحران شام کے چھ سال کا عرصہ ہو رہا ہے، اس ملک میں جنگ وجدال اور خونریزی عروج پر ہے۔ شام کےعوام اور فوجیوں کے لئے عرصہ حیات تنگ ہو گیا ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب شام میں جنگ اور خونریزی تمام گروہوں کے درمیان ایک عام بات ہوگئی ہے، اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ علاقے کی باہر کی دو بڑی طاقتوں امریکا اور روس کے درمیان ہونے والا معاہدے شام میں تمام فریق کو قابل قبول ہوگا اور اس میں جاری جنگ اور خونریزی کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔
4 – بحران شام میں کے داخلی عناصر کے رد عمل کا منطقی نہ ہونا بھی دونوں ممالک کے درمیان صلح کی کوشش کی ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں شام کے میدان جنگ میں موجود عناصر کسی بھی صورت میں دوسرے فریق کے ساتھ منطقی راہ حل میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے دوسرے فریق کو شکست کا ذائقہ چکھانا اور کسی بھی صورت میں میدان جنگ میں اپنی برتری ثابت کرنا۔ اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ غیر منطقی راہ حل اختیار کرنے والے فریق کسی بھی صورت میں ملک کے بارے میں غیر ملکیوں کے سمجھوتے کو قبول نہيں کریں گے۔ اسی لئے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ میدان جنگ کے حالات کو نظر انداز کرکے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روس کے صدر ولادیمیر پوتین کے درمیان ہونے والا کوئی بھی معاہد فائدہ مند نہيں ہوگا۔