الوقت - یمنی شہروں پر سعودی عرب کے جاری مسلسل حملوں کے جواب میں یمن کے سیکورٹی ذرائع نے ملک کے مغربی ساحل پر سعودی اتحاد سے وابستہ ایک جنگی بیڑے کے انہدام کی اطلاع دی ہے۔ اس جنگی بیڑے کا نام المدینہ تھا اور اس میں طویل اور چھوٹے فاصلے کے میزائل نصب تھے۔ اس جنگی بیڑے پر 176 فوجی اور افسر سوار تھے جبکہ اس پر ایک ہیلی کاپٹر بھی تھا۔ یمنی فوج کے اس حملے میں دو سعودی ہلاک ہوئے۔ گزشتہ سال بھی یمنی فوج نے ملک کے جنوبی صوبے تعز کے المخا شہر کے نزدیک آبنائے باب المندب میں دو جنگی کشتیوں کو نشانہ بنا کر غرق کر دیا تھا۔
ان واقعات کے اسباب کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کاروائی ایسی حالت میں ہوئی ہے کہ یمن پر سعودی عرب کے وحشیانہ حملے پوری آب و تاب سے جاری ہیں اور اس جنگی بیڑے پر حملے سے پتا چلتا ہے کہ یمنی فوج بھی سعودی عرب کی جارحیت کا بھر پور جواب دینے کی توانائی رکھتی ہے اور میدان جنگ کے حالات کو اچھی طرح درک کرتی ہے اور مستقبل میں اس کے اثرات قابل توجہ ہوں گے۔
در حقیقت انصار اللہ اور اس کے اتحادی علی عبد اللہ صالح کے پاس طویل فاصلے پر مار کرنے والے اینٹی شپ میزائل ہیں جو 9 مٹیر سے زیادہ طولانی اور وزن ساڑے چار ہزار کیلو ہے۔ یہ میزائل 320 کیلو ایٹمی وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس میزائل نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے تمام دعوؤں کے برخلاف تمام اندازوں کو درہم برہم کر دیا۔ تحریک انصار اور علی عبد اللہ صالح کے فوجیوں کی جوابی کاروائی نے دنیا کے حیرت زدہ کر دیا۔
تحریک انصار اللہ اور اس کے اتحادیوں نے یاخونت اور سانبرن نامی بیلسٹک میزائیلوں کی بڑی تعداد میں پیداوار کی اور ان کے توانائی میں وسعت کرکے جنگ کے میدان میں اپنی برتری برقرار رکھی ہے اور جنگ کے تمام اندازوں کے اپنے مفاد میں موڑ لیا اور سعودی عرب کی سیکورٹی پر بھی سوالات کھڑے کر دیئے۔ یمن کی تحریک انصار اللہ اور کے اتحادیوں نے اسی طرح زلزال، الحسین، اور شہاب-3 نامی اسکڈ میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہ میزائل یمن کے پاس گزشتہ ایک عشرے کے دوران ہیں۔ در ایں اثنا یمن کے سابق صدر علی عبد اللہ صالح کے اقتدار کے زمانے میں بھی انہوں نے مغرب سے متعدد میزائل خریدے اور اس طرح سعودی عرب کے مقابلے میں ملک کے دفاع کے لئے ان تمام میزائلوں سے استفادہ کیا اور سعودی عرب کے تمام اہداف اور اس کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔
سعودی عرب اور کے عرب اتحادیوں کے گزشتہ دو برس سے جاری حملوں کے جواب میں تحریک انصار اور اس کے اتحادیوں نے حیرت زدہ کاروائی کی اور سعودی عرب کے نجران، جیزان، عسیر اور ظہران کے علاقوں پر میزائل سے ایسے حملے کئے جس سے سعودی عرب اور کے اتحادی انگشت بدنداں رہ گئے۔ تحریک انصار اللہ کی مہم کے دوران، انصار اللہ کی دفاعی قوت پر بھی توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کی دفاعی قوت اس کی فوجی طاقت اور اسلحے کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے۔ 250 سے 500 کیلو میٹر کے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل نے سعودی عرب کے فوجی علاقوں کو ہدف قرار دیا۔ اس موضوع نے سعودی عرب کے حکام کی تشویش میں اضافہ کر دیا۔ انہوں نے متعدد بہانوں سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ایران نے یہ میزائل تحریک انصار اللہ کو دیئے ہیں۔
بہرحال گزشتہ دو برسوں سے سعودی عرب یمن پر مسلسل حملے کر رہا ہے اور ابھی تک وہ یمن میں اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل نہیں کر سکا ہے۔ اس کا اصل سبب یہ ہے کہ تحریک انصار اللہ اور یمن کے عوام کے سعودی عرب کی جارحیتوں کے مقابلے میں سخت مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے۔