الوقت - یورپی ملک آسٹریا کی حکومت نے اسکولوں، عدالتوں اور دیگر عوامی مقامات پر 'برقعے' پر پابندی عائد کرنے کے مسئلے پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق آسٹریا کی حکمران اتحاد تمام سرکاری ملازمین پر اسكارف اور اسلامی علامت سمجھی جانے والی کوئی چیز بھی پہننے پر پابندی لگانے پر غور کر رہا ہے۔
موصولہ رپورٹ کے مطابق آسٹریائی حکومت یہ قدم حزب اختلاف کی فریڈم پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو کم کرنے کے لئے اٹھا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آسٹریائی حکومت نے اسلام کی جانب سے خواتین کے لئے ضروری برقعے پر پابندی عائد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
آسٹریا کی حکومت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 'ہم ایک آزاد معاشرے کے حق میں ہیں اس لئے چہرے کو چھپانا ہمارے معاشرے کے خلاف ہے اس لئے ہم "برقعے" پر پابندی لگانے جا رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق آسٹریا میں تقریبا 150 خواتین برقعے کا استعمال کرتی ہیں، یہ خواتین پوری طرح اپنا چہرہ ڈھک کر رہتی ہیں۔ دوسری طرف اس ملک کے سیاحتی امور کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ حکومت کے اس قدم سے خلیج فارس کے ممالک سے آنے والے سیاحوں کی تعداد میں کمی آ سکتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے کئی یورپی ممالک میں برقعے پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں تاہم آسٹریا کے وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ یہ ایک 'علامتی' قدم ہے۔
واضح رہے کہ فرانس اور بیلجیم نے 2011 میں برقع پر پابندی عائد کی تھی جبکہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں بھی اس پر بحث جاری ہے۔ اس درمیان گزشتہ ماہ جرمن چانسلر انگلا مرکل نے بھی کہا تھا کہ جس سطح تک ممکن ہو برقع پر پابندی عائد ہونی چاہئے جبکہ برطانیہ میں اس طرح کی کوئی پابندی نہیں ہے۔