الوقت - ایسی صورتحال میں کہ مسلح مخالفین افغانستان کے جنوبی صوبے قندہار میں ہوئے دھماکوں کے مشتبہ قرار دیئے جا رہے ہیں اور طالبان نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں سیکورٹی اور خفیہ اجلاس تک کس کی دسترسی ہے؟
تقریبا دس دن پہلے افغانستان کے قندہار صوبے میں قندہار کے گورنر کے گیسٹ ہاوس میں میں عشائیہ کے دوران ہونے والے شدید خودکش حملے میں متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارتکار ہلاک ہوگئے تھے۔ اس اجلاس یا عشائیہ میں قندہار کے گورنر، افغانستان کے اعلی حکام اور متحدہ عرب امارات کے سفارتکار موجود تھے۔ اس خودکش حملے میں 12 افراد ہلاک جبکہ 14 دیگر زخمی ہوئے۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں نائب گورنر، دو رکن پارلیمنٹ اور متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارتکار مارے گئے جبکہ زخمی ہونے والوں میں قندہار کے گونر اور متحدہ عرب امارات کے سفیر بھی شامل ہيں۔
اس خودکش حملے کے فورا بعد طالبان گروپ نے اس حملے میں خود کے ملوث ہونے سے انکار کردیا جس کے بعد افغانستان کے داخلی اور خارجی حلقوں میں شدید اعتراض ہونے لگے۔ اس حملے کے بعد افغانستان کے صدر کے قومی سیکورٹی کے میشر حنیف اتمر نے کہا کہ اس حملے میں ایسے مواد کا استعمال کیا گیا جس کو ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا تھا اور طالبان اور کچھ غیر ملکی حلقے اس میں ملوث ہیں۔
افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت نے بھی اس واقعے کے بعد دو روزہ عام سوگ کا اعلان کیا جبکہ سرکاری عمارتوں اور حکومتی اداروں پر قومی پرچم سرنگوں کر دیا گیا۔ حکومت نے ہلاک شدہ متحدہ عرب امارات کے سفارتکاروں کی یاد میں ایوارڈ جاری کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ کچھ روز گزرنے کے بعد دنیا اور علاقائی ممالک نے افغانستان میں ہوئے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کو تعزیت پیش کی اور متحدہ عرب امارات کی حکومت اور عوام سے اظہار ہمدری کی۔
دوسری جانب اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم متحدہ عرب امارات کے ساتھ مشترکہ تحقیقات کے لئے قندہار صوبے روانہ ہوگئی۔ متحدہ عرب امارات اور اسکاٹلینڈ یارڈ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم دھماکے کے اسباب کے بارے میں تحقیقات کرے گی۔ کہا جاتا ہے کہ افغان حکومت کی تحقیقاتی ٹیم سمیت تین تحقیقاتی ٹیم قندہار حملے کے اسباب و علل کے بارے میں تحقیقات کرے گی لیکن اسکاٹلینڈ یارڈ پولیس متحدہ عرب امارات کی دعوت پر تحقیقات کے لئے قندہار صوبے گئی ہے۔
یہ ایسی حالت ہے کہ خودکش حملے کا سب سے پہلا الزام طالبان پر عائد کیا گیا ہے لیکن طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے اپنے پیغام میں اعلان کیا کہ اس دھماکے میں طالبان کا کوئی کردار نہیں ہے اور یہ دھماکہ افغان حکومت کے حکام کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے سبب ہوا ہے۔
طالبان کے اس بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے دبئی پولیس کے سربراہ ضاحی خلفان نے بھی کہا کہ جائے وقوعہ پر سیکورٹی کے سخت انتظامات تھے اسی لئے قندہار دھماکے اور متحدہ عرب امارات کے سفارتکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری افغان سیکورٹی حکام پر عائد ہوتی ہے۔
خلفان کے مطابق افغانستان کو انسان دوستانہ امداد اقوام متحدہ کے ذریعے دی جانی چاہئے اور اگر کوئی براہ راست افغانستان میں داخل ہوا تو وہ افغان حکام کے داخلی اختلافات کی قربانی چڑھ جائے گا۔
انہوں نے دعوی کیا کہ ان کے ایک دوست نے خود حملے سے پہلے افغانستان میں امریکی فوجیوں سے کہا تھا کہ اس ملک میں جمہوریت رائج کرنا محض پاگل پن ہے اور امریکی اس میں ناکام رہیں گے۔
اس واقعے اور ان بیانات کے بعد افغان طالبان نے ایک بیان جاری کرکے کہا کہ حادثے کے دن یعنی دس جنوری کو اس کے جنگجوؤں نے قندہار میں کوئی بھی کاروائی نہیں کی۔ طالبان کے بیان میں آیا ہے کہ شروع سے ہی اس گروہ کے متحدہ عرب امارات کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں اور وہ بھی غاصبوں اور ان کی حمایت کرنے والے فوجیوں کو نشانہ بنانے میں ان کی مدد کرتا رہا ہے۔
ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ بہت ہی اہم اجلاس تھا اور سیکورٹی کے سخت انتظامات تھے اور اس جگہ پر پہنچنا بہت ہی سخت کام ہے تاہم اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا قندہار حملہ، افغان حکام کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کا نتیجہ ہے؟