الوقت - ہم سیاہ فام یہودیوں سے شادی نہیں کریں گے، ان کو اپنے اسکولوں میں تعلیمات حاصل نہیں کرنے دیں گے، ان کی آبادی کو کنٹرول کریں گے، ان کی جانب سے ہمارے بیماروں کو دیا گیا خون ہم باہر پھینک دیں گے۔ یہ تمام کام سفید فام یہودی، سیاہ فام یہودیوں کے خلاف انجام دیتے ہیں۔
تسنیم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وہ عرب جو اپنی مقبوضہ سرزمین پر غاصبوں کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، وہ فلسطینی جو مغربی کنارے یا غزہ پٹی پر اسرائیل کی نسل پرستانہ دیوار کے پیچھے محاصرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، یا وہ پناہ گزین جو بہتر زندگی کی تلاش میں اسرائیل کا رخ کرتے ہیں اور وہاں غلام جیسی زندگی بسر کرتے ہیں، یہ تمام افراد اس "منتخب قوم" کی غیر یہودیوں کے بارے میں نسل پرستی کی داستانوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔
یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ تو اس سے زیادہ خطرناک ہے۔ حالیہ عشروں کے دوران دنیا نے یہودیوں کے خلاف یہودیوں کی نسل پرستی کے واضح نمونے کا مشاہدہ کیا۔ وہ ایتھوپیائی شہری جو یہودی ایجنسیوں کی کوششوں سے اسرائیل کی سرزمین پر صیہونیوں کی آبادی بڑھانے کے لئے مہاجرت پر مجبور کئے گئے، کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی سفید فام اشکنازی یہودیوں کی نسل پرستی کا شکار ہیں۔
اسرائیلی اعداد و شمار کے مرکز کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ ایتھوپیائی یہودی جنہیں مرزاحی یہودی کہا جاتا ہے، اشکنازی یہودیوں سے کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ اسرائیل میں پیدا ہونے والے اشکنازی یہودی، مرزاحی یہودیوں کی بہ نسبت دو گنا اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ 2014 میں ہونے والی ایک تحقیق کی بنیاد پر اوسطا اشکنازی یہودیوں کی در آمد مرزاحی یہودیوں سے 36 فیصد زیادہ ہے۔
یہودیوں کے خلاف یہودی، مرزاحی کے خلاف اشکنازی :
مئی 2015 کو جوئیش ڈیلی اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اسرائیل میں پورا ایتھوپیائی یہودی معاشرہ، غربت، نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا شکار ہے۔ 2012 میں مقبوضہ بیت مقدس کے بروکڈال مرکز کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ ایتھوپیائی نژاد اسرائیلی معاشرہ، دیگر صیہونی باشندوں سے اجتماعی اور اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہیں۔ اسرائیل کے ایک افریقی نژاد یہودی افرت یردای لکھتے ہیں کہ یہ افکار کہ ہم ایک غیر ملکی دشمن ہیں معاشرے میں رائج کر دی گئي ہے۔
رپورٹوں کی بنیاد پر 2012 سے افریقی ممالک سے اسرائیل ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کی تعداد 64 ہزار سے کم ہوکر 46 ہزار ہوگئی ہے۔ 2005 میں اوریہودا کے میئر نے ایتھوپیائی پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، ان کا دعوی تھا کہ اس سے شہر کی اہمیت کم ہو جائے گی اور جرائم میں اضافہ ہوگا۔
سیاہ فام اسرائیلی فوجی بھی محفوظ نہیں ہیں :
اپریل 2015 میں ایک ایتھوپیائی فوجی پر صیہونی حکومت کے پولیس افسروں نے حملہ کردیا۔ اس واقعے کو ایک سی سی ٹی وی کمیرے نے ریکارڈ کیا۔ اس فوجی کا نام دامس پاکہ دہ تھا اس کو پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گيا اور پھر اسے آزاد کر دیا گیا۔ پاکہ دہ ایک یتیم جوان تھا جس نے 2008 میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مقبوضہ علاقوں کی جانب ہجرت کی تھی۔
سیاہ فام یہودیوں کے خون سے بھی پرہیز :
اسرائیلی اخبار معاریو نے 24 جنوری 1996 کو انکشاف کیا کہ اسرائیل کے ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایتھوپیائی مہاجرین اور ان کے فرزندوں کی جانب سے ڈونیٹ کیا گيا خون خفیہ طورپر تباہ ہوگیا۔ بعد میں پتا چلا کہ ممکنہ طور پر ایتھوپیائی یہودیوں کے خون وائریس سے آلودہ ہو سکتے ہیں اس لئے ان کو تباہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سیاہ فام یہودیوں کی آبادی پر کنٹرول :
اسرائیل کے ایک ٹیلیویژن چینل نے 2012 میں انکشاف کیا کہ ایتھوپیائی مہاجر خواتین کو Depo-Provera نامی ایک دوا دی گئی جس سے وہ حاملہ نہیں ہو سکتیں جبکہ صیہونی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ مذکورہ دوا اسی وقت استعمال کی جائے جب اس کے نقصانات کے تمام پہلوؤں سے آگاہی ہو۔