الوقت - حلب کی آزادی کے بعد شام کی فوجی، سیکورٹی اور سیاسی صورتحال پر الوقت سینٹر میں ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں مشرق وسطی کے مشہور تجزیہ نگار محمد علی مہتدی اور الوقت تجزیاتی اور تحلیلی سینٹر کے مشہور تجزیہ نگار اور مصنف ڈاکٹر احمد زارعان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر مہتدی نے اس اجلاس میں کہا کہ شام کے مستقبل میں حلب کی آزادی بہت اہم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حلب کی آزادی، شام کی تبدیلیوں میں اہم موڑ ہے اور اس کے بعد بحران شام ایک نئے مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔ دیر الزور اور رقہ میں داعش کے خلاف جنگ اور اسی کے ساتھ ایران اور روس کے اقدامات سے نئے مرحلے کا مطلب یہ ہے کہ اب بحران شام کے سیاسی حل کا مسئلہ پیش ہونے اور فوجی آپریشن کی اہمیت کم ہو جائے اور اس کی جگہ سیاسی راہ حل لے لے گا۔ یہی سبب ہے کہ روس نے بھی شام میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنا شروع کر دی ہے، حتی اس نے بحیرہ روم سے اپنے سب سے بڑے جنگی بیڑے کو نکال لیا ہے۔ اس کے بعد ہم ماسکو میں ایران، روس اور ترکی کے درمیان سہ فریقی کانفرنس کا مشاہدہ کیا۔
اس کانفرنس میں ایران کی جانب سے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے شرکت کی جبکہ روس کی جانب سے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور ترکی کی جانب سے چاووش اوغلو نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے نتائج کی بنیاد پر پورے شام میں جنگ بندی کا نفاذ ہوا اور یہ وہی سیاسی حل ہے جس کی جانب میں نے اشارہ کیا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں شام کے بارے میں ترکی کے مواقف میں تبدیلی کو اسٹرٹیجک تبدیلی قرار دیا اور کہا کہ ترکی بھی مغرب کا اتحادی اور نیٹو کا رکن ملک ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ اسٹرٹیجک سمجھوتے ہیں۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بھی اصلاح پسند اور اخوان المسلمین کی ذیلی شاخ ہے۔ اس بنیاد پر مغربی بلاک سے نکل کر مزاحمت کے محاذ کی جانب جانے کا ترکی کا قدم، اسٹراٹیجک نہیں ہو سکتا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترکی نے اس میں ایسا کھیل شروع کیا ہے تاکہ وہ فوجی آپریشن میں اپنی شکست کو سیاسی کامیابیوں میں تبدیل کر سکے۔ اس کھیل میں ترک حکام یہ ظاہر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ سارے پتے تو روس کے ہاتھ میں ہے اور ایران اور شام کو کنارے لگا دیا گیا ہے اور سیاسی مرحلے میں اصل فیصلہ ترکی اور روس ہی کرتے ہیں۔ اس کھیل میں سعودی عرب اور قطر بھی ترکی کی حمایت کر رہے ہیں۔
مشرق وسطی کے مشہور تجزیہ نگار محمد علی مہتدی نے شام کے مسئلے میں ایران کو الگ تھلگ کرنے کے ڈرامے میں ترکی کے منصوبے میں عرب اور مغربی محاذ کے شامل ہونے کی جانب سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آخرکار سعودی عرب، ترکی، اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایسی روایت بیان کی گئی جس کو ان ممالک کے سٹییلائٹ چینلز اور ویب سایٹوں پر پھیلایا بھی گیا۔ اس روایت کی بنیاد پر روس اور ترکی موجود وقت میں ایران اور شام کو دھوکہ دینے کی کوشش میں ہیں، ایران علی الاعلان محاذ سے کنارے کر دیا گیا ہے، اب سب کچھ ترکی کے ہاتھ میں ہے اور قطر، سعودی عرب اور اسرائیل، روس کے حامی ہیں۔
اسی تناظر میں ترک حکام نے بھی اعلان کیا ہے کہ حزب اللہ اور عوامی فورس باہر سے شام کی حکومت کی مدد کرنے آئی ہے، ان کو شام سے نکل جانا چاہئے۔ البتہ ایران کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ یہ فوجی شام کی حکومت کی درخواست پر شام میں داخل ہوئے ہیں اور شامی حکومت کے حکم بھی ہی نکلیں گے۔ در اصل وہ اس بات کو رائج کرنا چاہتے ہیں کہ شام کے مسئلے میں ایران کو الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ روایت غلط ہے کیونکہ روس ایران سے بہت نزدیک ہے۔ ترکی اور اس کے حامی یہ پروپیگينڈا کر رہے ہیں۔