الوقت - افغانستان کے متعدد علاقوں میں متعدد دھماکوں کے بعد جس میں تین روز پہلے قندر کے گیسٹ ہاوس میں ہونے والا دھماکہ بھی شامل ہے، اس دھماکے میں متحدہ عرب امارات کے کچھ سفارتکار بھی ہلاک اور زحمی ہوئے، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس عمل کا جاری رہنا افغانستان کی شکستہ سیکورٹی اور استحکام کے لئے بہت ہی خطرناک ہے۔ اگر چہ طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے لیکن دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ طالبان کی واقعے میں ملوث ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر الوقت نے افغانستان کے امور کے ماہر اور تجزیہ نگار ڈاکٹر جعفر حق پناہ سے گفتگو کی ۔ پیش خدمت ہے اہم اقتباسات :
الوقت : حالیہ ایک برس میں افغانستان میں دھماکوں میں اضافے کے کیا اسباب ہیں ؟
جواب : حالیہ کچھ مہینے کے دوران افغانستان میں حملوں کے اضافے سے کئی سوال پیدا ہوتا ہے۔ افغانستان تقریبا دس سال سے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں تیز کئے ہوئے اور موسم سرما طالبان کے حملوں کی فصل نہیں ہوتی۔ طالبان ہمیشہ سے جغرافیائی مسائل اور سردی کی وجہ سے اس موسم میں اپنے جنگجوؤں کو ٹریننگ دینے میں مصروف رہتا ہے، اسی لئے موسم بہار اور موسم گرما میں حملے انجام دیتا ہے۔ اسی لئے یہاں پر ایک اصل سوال یہ ہے کہ موجودہ وقت میں طالبان نے اپنے حملے تیز کیوں کئے جبکہ موسم سرما چل رہا ہے؟ اس کے چند اسباب ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ ہے افغانستان میں اب بھی امریکی فوجی موجود ہیں۔ موجودہ وقت وائٹ ہاوس میں اقتدار کی منتقلی کا زمانہ بھی ہے۔ اوباما انتظامیہ کے بعد ٹرمپ کی جو ٹیم بر سر اقتدار آنے والی ہے وہ افغانستان کی اچھی خاصی شناحت رکھتی ہے اور وہاں کے مسائل سے آگاہ ہے۔ ڈونلڈ کی کابینہ کے بہت سے افراد افغانستان میں رہ چکے ہیں۔ اسی لئے یہ دھماکے ٹرمپ کی نئی ٹیم کے لئے ایک پیغام اور اپنی طاقت کا مظاہرہ بھی ہو سکتا ہے۔ مذاکرات کے موقع پر یہ طالبان کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ فریق مقابل سے مزید امتیاز حاصل کر سکے۔
الوقت - ان تمام اسباب کے باوجود، طالبان کیوں ان کاروائیوں کی تردید کر رہا ہے؟
جواب : شاید یہ اس لئے ہو کہ موجودہ وقت میں طالبان کا صرف ایک گروہ افغانستان میں سرگرم نہیں ہے بلکہ بہت سے گروہ طالبان کے نام سے اپنی سرگرمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موجود وقت میں کچھ انتہا پسند گروہ طالبان کے نام سے استفادہ کرتے ہیں اور کاروائیاں انجام دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کے مقابلے میں کچھ دوسرے گروہ ان اقدامات کے مخالف ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کام میں طالبان ملوث بھی ہو سکتے ہیں اور نہیں بھی۔
سوال : ابھی آپ نے وائٹ ہاوس میں اقتدار کی منتقلی کی تھی، وائٹ میں اقتدار کی منتقلی کے افغانستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
جواب : ٹرمپ کی ٹیم افغانستان کے مسائل میں زیادہ دلچسپی دکھائے کی اور اس پر زیادہ توجہ مرکوز کرے گی۔ جنرل میٹس کو ٹرمپ نے ملک کا وزیر دفاع بنایا ہے جبکہ مایک فلن افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔ اسی طرح زلمی خلیل زاد، افغان نژاد ہیں اور وہ ٹرمپ کے مشیر خاص ہیں۔ وہ افغانستان میں امریکی سفارت بھی رہ چکے ہیں۔ ان سب باتوں کے مد نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم اپنی خارجہ پالیسی میں افغانستان کو زیادہ اہمیت دینے والے ہیں۔
سوال : افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی سے قطع نظر، کیا افغانستان میں ہونے والے حملے میں کوئی دوسری طاقت بھی ملوث ہے؟
جواب : افغانستان میں جب بھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے فورا ہی الزام پاکستان پر لگتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی ان حملوں میں ملوث رہی ہے تاہم پاکستان نے ہمیشہ ہی ان کی تردید کی ہے۔