الوقت - صیہونی حکومت کے محاصرے میں گھرے غزہ پٹی کی انسانی اور اجتماعی صورتحال مزید بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ عالمی تنظیموں اور اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پٹی میں اگر یہی صورتحال جاری رہی تو انسانی المیہ رونما ہو جائے گا جس کی ذمہ دار پوری دنیا ہوگی۔ صیہونی حکومت کے ظالمانہ محاصرے کا سب سے زیادہ شکار بچے ہو رہے ہیں جو دواؤں اور طبی وسائل کی کمی کے سبب موت سے جنگ کر رہے ہیں۔
مریضوں کی قابل رحم حالت :
الرسالہ ویب سایٹ نے محاصرہ اور دواؤں کی کمی، غزہ کے بیماروں کی موت سبب عنوان کے تحت اپنی رپورٹ میں لکھا کہ غزہ میں ضروری طبی وسائل اور دواؤں کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر مریض موت کی آغوش میں سونے والے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محاصرے کی وجہ سے غزہ پٹی کے بیماروں کے حالات سخت ہوگئے ہیں۔ غزہ پٹی کے سیکڑوں بیمار، مصر کے سابق صدر محمد مرسی کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے زمانے سے غزہ اور سینا کے درمیان سیکڑوں زیر زمین سرنگوں کے خراب ہونے کی وجہ سے کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔
علاج و معالجے کے لئے غزہ چھوڑنے کی ہزاروں فلسطینیوں کی کوششیں رائیگاں ہوگئی ہے کیونکہ رفح پاس مہینے کے کچھ ہی ایام میں کھولا جاتا ہے اور رفح پاس کو عبور کرنا جوئے شیر لانے مترادف ہے۔ 41 سالہ مریض احمد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ تقریبا روزانہ آپ کی ڈائلسس ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں نے ان کو مصر جانے کا مشورہ دیا ہے لیکن جب رفح پاس کھلتا ہے تو ان کا نمبر آتے آتے دوبارہ بند ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کا رنج و الم 30 سالہ رائد حلمی کا بھی ہے۔ رائد حلمی کو بلڈ کینسر ہے۔ ان دونوں مریضوں کی مشترکہ مصیبت، رفح پاس کو عبور کرنا ہے جس میں یہ بھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
مصر میں جب محمد مرسی بر سر اقتدار تھے اس وقت فلسطینیوں کی زندگی کسی حد تک بہتر تھی۔ غزہ میں رہنے والے بہت سے افراد جو حماس اور اخوان المسلمین کی حمایت تک نہیں کرتے، بڑی حسرت سے محمد مرسی کے دور اقتدار کو یاد کرتے ہیں خاص طور پر موجودہ وقت میں جب غزہ پٹی کا محاصرہ شدید ہو گیا ہے۔ غزہ پٹی کے حکام نے مصری حکومت سے بارہا رفح پاس کھولنے کی اپیل کی لیکن ان کے مطالبات پر کوئی بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔
24 گھنٹے میں صرف 8 گھنٹہ بجلی :
2013 سے بجلی کی حالت، بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ معمولا فلسطینیوں کو روزانہ آٹھ گھنٹے کی بجلی ہی میسر ہوتی ہے۔ یہ غزہ کے عوام خاص طور پر غزہ کے اسپتالوں کے لئے سب سے بڑی مصیبت ہے۔ دسمبر کے مہینے میں آغاز ہونے والی شدید گرمی، بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ میں مسلسل اضافہ بیماروں کے لئے مسائل پیدا کردیتی ہے۔ غذاء، دوا، ایندھن کے بحران کے ساتھ سب سے اہم بحران گھر کا ہے۔ غزہ کے زیادہ تر لوگوں کے پاس سر چھپانے کے لئے چھت نہیں ہے۔
پانی کا بحران :
غزہ پٹی کے باشندوں کو پینے کے صاف پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ پینے کے پانی کے زیر زمین ذخائر حشک ہو چکے ہیں جبکہ غزہ میں موجود پینے کا پانی 95 فیصد سے زیادہ آلودہ ہے۔ اگر غزہ کے عوام کے 2020 تک پانی کے ذخائر دستیاب نہیں ہوئے تو پوری دنیا اس علاقے میں انسانی المیہ کا مشاہدہ کرے گی۔
نتائج :
غزہ کے عوام پر ہونے والے مظالم پر خاموش تماشا دیکھنے والے یہ دعوی کرتے ہیں کہ حماس اور جہاد اسلامی اور دیگر مزاحمتی گروہ دہشت گرد ہیں، جو افراد اپنی سرزمین کا دفاع کرتے ہیں اور غاصب حکومت کو قبول نہیں کرتے کیا وہ دہشت گرد ہوتے ہیں۔ کیا غزہ پٹی کے مریض اور بچے بھی دہشت گرد ہیں؟ صیہونی حکومت کے اخبار ہاریٹز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ غزہ کے زیادہ تر بچوں کی موت کا سبب پانی کی قلت ہے۔ بہرحال عالمی برادری کو غزہ کے موت کے سکوت کو توڑنا ہوگا اور ایسی کوئی تدبیر اختیار کرنی ہوگی جو غزہ کے مظلوم عوام کو اس مصیبت سے نجات دلا سکے۔