الوقت - ابتدائی تفتیش سے پتا چلتا ہے کہ روسی سفیر کا قاتل، 2015 میں حلب گیا تھا اور اس کا علم ترک حکومت کو تھا ۔
موصولہ رپورٹ کے مطابق وہ دہشت گرد گروہ نصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر شام کی فوج سے جنگ کر چکا تھا۔
تسنيم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ترک اخبار زمان نے ہفتے کو روسی سفیر کے قتل کے بارے میں تحقیقات کرنے والے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ روسی سفیر کا قاتل سال 2015 میں شام گیا تھا اور اس کی اطلاع حکومت کو تھی جہاں پر اس نے النصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر شام کی فوج کے خلاف جنگ کی تھی۔
اخبار نے ذرائع کا نام خفیہ رکھتے ہوئے لکھا کہ ترک سیکورٹی اہلکار "مرت مولود التين تاش" حلب میں نصرہ فرنٹ کے دہشت گردوں کے درمیان سب سے زیادہ سفاک جنگجو شمار ہوتا تھا۔ اس نے حلب شہر کی عمارتوں اور فوج کے ٹھکانوں پر قبضہ کرنے اور فوج کے خلاف کارروائیوں میں بھرپور طریقہ سے شرکت کی تھی۔
یہ اخبار لکھتا ہے کہ كارلوف کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے بتایا ہے کہ قاتل نے شام کے کئی فوجیوں کو قتل کیا ہے اور اسی کے ساتھ شام میں اس کے کئی ساتھی اور جنگجو دوست بھی مارے گئے۔ جب سے مرت التين تاش حلب سے واپس ہوا ہے اس کی ذہنیت بدل چکی تھی۔ وہ کھویا - کھویا رہتا تھا، وہ ہمیشہ ایک وسیع قتل عام انجام دینے کے بارے میں منصوبہ بناتا رہتا تھا۔ اس نے اپنے دوستوں سے کئی بار کہا تھا کہ میں قتل کروں گا، میں قتل کروں گا، جب اس کے دوست پوچھتے تھے کہ کسے قتل کرو گے تو کہتا تھا کہ کوئی ہے جسے میں ٹھکانے لگاؤں گا۔
ترک اخبار لکھتا ہے کہ روسی سفیر کا قاتل، قتل سے ایک ہفتے قبل، اپنی درخواست کی وجہ سے روسی سفیر کا محافظ مقرر ہوا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ترکی کے صدر اردوغان کا بھی محافظ رہ چکا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ پیر کو انقرہ میں روسی سفیر آندرے كارلوف کو اس وقت گولی مار دی گئی، جب وہ ایک آرٹ گیلری میں تصاویر کی نمائش کی افتتاحی تقریب کو خطاب کر رہے تھے۔ اس آرٹ گیلری کا عنوان تھا "روس، ترکوں کی نظر سے"۔