مشرقی حلب میں داعش کے دہشت گردوں کی صفوف میں تلاطم برپا ہونے اور فوجی کی پیشرفت کے حوالے سے الوقت نے دفاعی امور کے تجزیہ نگار ریٹارئرڈ جنرل امین حطیط، تجزیہ نگار ابراہیم بیرم اور شام کے تجزیہ نگارسلیم حربا سے خصوصی گفتگو کی۔ پیش ہیں گفتگو کے اہم اقتباسات :
الوقت – مشرقی حلب ميں دہشت گردوں کی تیزی سے شکست کے اسباب کیا ہیں، یہ جنگ کی انتہا ہے یا جنگ جاری رہے گی ؟
ریٹائرڈ جنرل امین حطیط کا کہنا ہے کہ اس کے دوسبب ہیں، پہلا وہ فوجی مشقیں ہیں شام کی فوج نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر انجام دیا اور ایسے کارنامے انجام دیئے جس سے دہشت گردوں کی صفیں درہم برہم ہوگئی۔ شام کی فوج کی پیشرفت اتنی زیادہ تیز تھی کہ عقلیں حیران رہ گئیں۔ دوسرا سبب مشرقی حلب میں موجود دہشت گرد میں اتحاد کا فقدان تھا۔ دہشت گردوں کے حامی لاکھ کوشش کرنے کے باوجود میں مشرقی حلب میں موجود اپنے ایجٹنوں کو متحد کرنے میں ناکام رہے اور شام کی فوج نے اسی اختلاف کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ پھر کبھی متحد نہیں ہوسکے۔ جی ہاں آپ نے جو سوال کیا ہے کہ کیا جنگ کا خاتمہ ہو گیا تو میں سمجھتا ہوں کہ جنگ اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے۔ اب فوج کے جوانوں کو صرف علاقے کی پاکسازی کرنی ہے اور فوج کے سامنے دہشت گردوں کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں۔ ان کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں یا تو موت کو گلے لگا لیں یا خود کو فوج کے حوالے کر دیں۔
ابراہیم بیرم کا کہنا ہے کہ اصل جنگ تو ختم ہوگئی ہے۔ اس کے لئے کچھ وقت درکار ہے اور آنے والا دن اس تاریخی شہر سے مخالفین کی بیخ کنی کا وقت ہے۔ یہ دہشت گردوں کی ایسی شکست ہے کہ اب وہ اپنی ماضی کی طاقت کبھی بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ دہشت گرد فوجی، سیاسی اور معنوی لحاظ سے شکست کا سامنا کر رہے ہیں۔ حلب کے تین چوتھائی علاقے پر موجودہ وقت میں فوج کا قبصہ ہو گیا ہے اوراب آخری محلہ ہی دہشت گردوں کے قبضے میں باقی بچا ہے۔
سلیم حربا کا کہنا ہے کہ حلب کا معرکہ شام کی فوج اور اس کے اتحادیوں کے مفاد میں تمام ہو گیا ہے۔ شام کی فوج نے یہاں تاریخی کامیابی حاصل کی ہے اور دہشت گردوں کے تمام حملوں اور کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ مشرقی حلب میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی تیز ہونے سے حلب کا مغربی علاقہ حملوں سے پوری طرح محفوظ ہو گیا ہے۔ شام کی فوج نے بڑی مہارت سے مشرقی حلب میں ھنانو علاقے سے کاروائی شروع کی اورآہستہ آہستہ اپنی کامیابی کا دائرہ بڑھاتی رہی۔ حلب کے معرکے نے دہشت گردوں کے حامیوں، سیکورٹی کونسل کی کوششوں اور تمام خلاف ورزیوں پر پانی پھیر دیا۔
الوقت : حلب میں فوج اور اس کے اتحادیوں کی کامیابی کے باقی علاقوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
ریٹائرڈ جنرل امین حطیط، میں سمجھتا ہوں کہ حلب کی کامیابی، بحران شام کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گی اور شام پر جنگ مسلط کرنے والوں کے تمام منصوبوں پر پانی پھر جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں حلب میں کامیابی صرف شام کے لئے ہی کامیاب نہیں ہے بلکہ یہ پورے علاقے کی تاریخی کامیابی ہے۔
ابراہیم بیرم، یہاں پر دو نظریے ہیں۔ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ حلب کی جنگ ہی پہلی اور آخری ہے۔ یعنی شام کی حکومت نے میدان جنگ میں بازی مار لی ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ حلب کی کامیابی دہشت گردوں کو صرف ایک کاری ضرب ہے اور فوج کو اسی طرح پوری سنجیدگی سے مزید معرکوں کو سر کرنا ہوگا۔
سلیم حربا، میں سمجھتا ہوں کہ حلب کی کامیابی کے بعد شام کی فوج الباب اور نبل اور الزہرا علاقوں کی جانب توجہ مرکوز کر دے گی تاکہ ان علاقوں کو پوری طرح محفوظ کر سکے۔