الوقت - صیہونی حکومت نہ طاقت اور ہتھیاروں کے زور پر بلکہ نرم نظریات اور ہوشیاری بھری حکمت عملی سے یوریشیا ممالک کی ضرورتوں کو پورا کرکے ان ممالک میں اہم اور بنیادی طاقت کی حیثیت سے اپنا مقام مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے۔
یوریشیا کا جیوپولیٹک :
یورشیا ایک وسیع و عریض رقبے والی سرزمین کا نام ہے۔ یوریشیا (Eurasia) ایک عظیم قطعہ زمین ہے۔ یہ خطہ یورپ اور ایشیا نامی براعظموں میں تقسیم ہے اسی لئے اس کو یوریشیا کہا جاتا ہے۔ اس کا رقبہ 54,00,000 مربع کلومیٹر ہے۔ یوکرین سے لے کر بلاروس، بحیرہ اسود سے وسطی علاقوں سے روس، قفقاز، دریائے خزر، مرکزی ایشیا اور منگولیا اس میں شامل ہیں۔ یوریشیا علاقوں کی تقسیم بندی کے لحاظ سے بہت اہم علاقہ تصور کیا جاتا ہے جس میں بین الاقوامی ڈھانچے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ یہ علاقہ سرد جنگ کے زمانے میں مشرقی بلاک میں تھا لیکن کیونکہ یہ اٹلانٹک، مغربی ایشیا اور پیسفک جیسے تین اہم علاقوں میں موجود ہے اسی لئے یہاں روس کا زیادہ بول بالا ہے۔ در اصل یہ علاقہ روسی سلطنت کی اصل شناخت ہے۔ یوریشیا میں جو کجھ ہو رہا ہے وہ صرف بڑی طاقتوں کے درمیان رقابت نہیں بلکہ کچھ طاقتوں کے ساتھ متعدد اہداف کے لئے صیہونی حکومت کی سازشیں بھی پنہا ہیں جس میں علاقے میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنا بھی شامل ہے۔
توانائیاں اور سیکورٹی و شناختی نظم و ضبط
مادی طاقت سے پیدا ہونے والے مفاد کی سادہ تعریف یہ ہے کہ ایک طاقت یا بازیگر کے مقام اور توانائیوں کو معین کرتا ہے۔ اس سے مذکورہ طاقت کی حیثیت اور توانائی اور بعض طاقتوں کے ساتھ کے تعاون کا پتا چلتا ہے۔ یوریشیا میں صیہونی حکومت کی موجودگی کا مطلب، علاقائی ممالک کے حکام کی جانب سے اس حکومت کے ساتھ تعاون کے نتیجے میں اس غاصب حکومت کی نئی شناخت کا ادارک ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ صیہونی حکومت علاقے کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور مشترک مفاد سے استفادہ کرنے کے علاوہ اپنے سیکورٹی اہداف کو پورا کرنے کے لئے کم خرچ سے مطلوبہ نظم و ضبط کو تباہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ صیہونی حکومت کو اپنے ان اہداف کو حاصل کرنے کے لئے یونان سے لے کر ترکمنستان تک ایشیائی حکومت سے تعلقات مضبوط اور استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
صیہونی حکومت اور جمہوریہ آذربائجان :
مسلمانوں سے زیادہ آبادی اور ترکی اور روس جیسے دو طاقتور ممالک کے پڑوس میں ہونے، 7 ارب بیرل تیل کے ذخائر اور 85 ٹریلیون میٹر مکعب گیس سے ذخائر سے مالامال اور ساتھ ہی یورپ کو توانائی سپلائی کرنے کے ٹرانزٹ راستے پر واقع ہونے جیسے متعدد اسباب کی وجہ سے صیہونی حکومت جمہوریہ آذربائجان میں اثر و رسوخ قائم کرنے کے لئے بہت کوشش کر رہی ہے۔
مرکزی ایشیا میں صیہونیزم کے نفوذ کا منصوبہ :
ازبکستان اور تاجکستان میں صیہونی حکومت کا پہلا اقدام، زراعت، آب رسانی اور متعلق ٹکنالوجیوں کی منتقلی ہوگی۔ ترکمنستان کو بھی ان شعبوں میں پیشرفت کے لئے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ جیو اسٹرٹیجی کے لحاظ سے ترکمنستان، صیہونی حکومت کے لئے بہت مہم ہے۔ مثال کے طور پر یورشلم میں ہر انسان، عشق آباد کے ہوٹل سے ایران کو دیکھ سکتا ہے۔
روس اور صیہونی حکومت :
صیہونی حکام روس کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بہت ہی اہمیت دیتے ہیں ۔ نومبر 2003 میں پوتین اور اریل شارون کے درمان ہونے والا تاریخی سمجھوتہ، اس طرح کا پہلا سمجھوتہ تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب ایران اور شام سے روس کی نزدیکی بھی صیہونی حکومت کے مفاد کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی اور وہ تمام شعبوں میں روس کے ساتھ تعاون کرنے کے تیار ہے۔