الوقت - موصل شہر کی مکمل آزادی کے ہدف سے شروع کیا جانے والا موصل آپریشن، عراق میں گزشتہ دو برسوں کے دوران چلائے جانے والے آپریشنز میں سب سے مہم ہے۔ موصل شہر کی اسٹرٹیجک اہمیت اور نینوا صوبے کے شام اور ترکی کے سرحدی ہونے کے مد نظر، موصل شہر کی آزادی کی مہم، عراق کی داخلی سیکورٹی پر مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ موصل شہر میں 10 قومی اور مذہبی اقلیت کے افراد آباد ہیں اور اس شہر کی آبادی میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وزیر اعظم حیدر العبادی کی حکومت نے جون کے مہینے میں موصل سٹی کی آزادی کے منصوبے کو عراق کی اعلی دفاعی کونسل میں منظور کرا لیا تھا لیکن امریکا، سعودی عرب اور ترکی کی مداخلت کی وجہ سے موصل شہر کی آزادی کی مہم میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔
اس طرح سے تقریبا دو مہینہ پہلے امریکا کے عراق کی حکومت سے موصل میں سرگرم تقریبا دس ہزار داعش کے دہشت گردوں کے مستقبل کے حوالے سے اختلافات شدید ہوگئے کیونکہ امریکا کی کوشش تھی کہ موصل سٹی کی آزادی کی مہم کے دوران موصل کے مغربی علاقہ کو جو تلعفر سے ملتا ہے، داعش کے دہشت گردوں کے آرام سے شام جانے کے لئے کھلا چھوڑ دیا جائے۔
عراق کی رضاکار فورس یا حشد الشعبی کا موقف تھا کہ موصل کو داعش کے دہشت گردوں کا قبرستان بنا دیا جائے اسی لئے ترکی نے اپنے فوجیوں کو عراق کی بعشیقہ فوجی چھاونی میں بھیج دیا تاکہ اس کے فوجی موصل سے شام جانے والے داعش کے دہشت گردوں کی منتقلی کے عمل کی نظارت کر سکیں۔ ترکی کی حکومت نے تقریبا دو سال پہلے دو ہزار فوجیوں کو موصل شہر کی بعشیقہ فوجی چھاونی میں تعینات کر دیئے تاکہ وہ موصل میں داعش کے دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکیں۔
اس بنیاد پر عراق، امریکا اور ترکی کے درمیان شدید اختلافات کے باوجود موصل سٹی کا آپریشن شروع ہوا۔ موجودہ وقت میں عراقی فوج موصل سے صرف دو کیلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اسی کے ساتھ حشد الشعبی نے بھی موصل سے داعش کے نکلنے کے راستے کو منقطع کر دیا اور اس طرح سے اس نے امریکا کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔
ابھی موصل سٹی کی مہم شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ سعودی عرب اور قطر کے ذرائع ابلاغ نے عراق کی رضاکار فورس کے خلاف شدید پروپیگینڈے شروع کر دیئے۔ گرچہ یہ مہم موصل کی آزادی کی مہم شروع ہونے کے وقت سے ہی شروع ہوگئی تھی اور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے علاقے میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی اپنی مہم شروع کر دی کہ حشد الشعبی موصل کے اہل سنت کی سرکوبی کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہی سبب تھا کہ وزیر اعظم حیدر العبادی کے حکم سے رضاکار فورس کے موصل شہر کے مرکز میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
ایسے حالات میں اگر چہ موصل سٹی کی آزادی عراق میں پائیدار امن کے قیام اور اسی طرح عراق کے تمام سیاسی گروہوں کے درمیان تعاون کی مضبوطی میں مدد کرے گی لیکن داعش اور اس کے علاقائی حامیوں کی شام کی جانب توجہ کی وجہ سے اس ملک کے لئے حالات مزید پیچیدہ اور خراب ہوگئے۔
در ایں اثنا عراق میں داعش کے آخری گڑھ موصل کے داعش کے وجود سے پاک ہونے کے بعد عراق کے مغربی اور شمالی علاقوں میں مکمل سیکورٹی نافذ ہو جائے گی۔