الوقت - امریکی صدارتی انتخابات کے امیدواروں کی بحثوں اور مناظروں کا اصل موضوع مشرق وسطی تھا۔ در ایں اثنا ٹرمپ اور کلنٹن کے درمیان جے سی پی اواے اور بحران شام کے موضوع پر کئی بار بحثیں ہوئی اور انہیں موضوعات کو لے کر دونوں کے درمیان کافی تلخی بھی پیدا ہوگئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹ کے رویوں اور شام کے لئے کلنٹن کے مستقبل کے پروگرام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کلنٹن کی سیاست کی وجہ سے امریکا، روس کے ساتھ براہ راست جنگ میں شامل ہوجائے گا۔ انہوں نے اپنے ملک کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے کہا کہ موجودہ وقت میں امریکا، داعش سے مقابلے کے بجائے ایران اور روس کے ساتھ جنگ میں مشغول ہے۔ اس کا معنی تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے۔
ریپبلکن پارٹی کے امیدوار نے اپنی انتخابی مہم کے دوران شام کے بارے میں الگ طریقہ کار اختیار کرنے پر تاکید کی جو اب تک اوباما شام کے حوالے سے اختیار کئے ہوئے تھے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے بجائے داعش کے جنگ کی کوشش کرنی چاہئے۔ انہوں نے شام کے کرد جنگجوؤں کو سب سے موثر جنگجوؤں کی حیثیت سے یاد کیا جو داعش کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاوس شام کے مسلح مخالفین کی حمایت کرے گا، بغیر یہ دیکھے کہ یہ کون افراد ہیں۔
انتخابات میں زبردست کامیابی کے بعد ٹرمپ اب بھی اپنے قدیمی مواقف پر تاکید کر رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز کی عمارت کے دورے کے دوران کہا کہ بحران شام کو حل کرنے کے لئے ان کا موقف متفاوت ہے۔ ان کا یہ بیان ایسی حالت میں سامنے آیا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے شام میں نو فلائی زون قائم کرنے کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے سے زیادہ داعش کو شکست دینا اہم ہے اور وائٹ ہاوس کو بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے بجائے داعش پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
ٹرمپ کے مواقف، ریپبلکن پارٹی کی خارجہ پالیسی بنانے والے ارکان کے نظریات کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ ریپبلکنز عالمی مسائل کے بارے میں ڈیموکریٹ سے زیادہ شدت پسند ہیں اور اسی لئے وہ شام کے بارے میں موجودہ مواقف سے پسپائی کی مخالفت کر رہے ہیں۔
در حقیقت ٹرمپ خود ریپبلکن پارٹی کے مکمل رکن نہیں ہیں۔ وہ اپنے انتخابی ایجنڈوں میں ان بعض مواقف کی مخالفت کرکے جن پر کچھ ریپبلکنز تاکید کرتے ہیں، عوامی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ امریکا کے نئے صدر نے یہ بتا دیا کہ ملک کا داخلی اقتصاد اور سیکورٹی، دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کرنے اور غیر ملکی بحرانوں میں براہ راست مداخلت کرنے سے زیادہ اہم ہے۔
یہی سبب ہے کہ ایک شدت پسند فوجی جنرل کو انہوں وزرات دفاع کا قلمدان دے دیا اور مٹ رامنی کو وزیر خارجہ کا عہدہ دے کر انہوں نے تمام احتمالات پر خط بطلان لگا دیا۔ ان سب سے باوجود ایسا نہیں لگتا کہ امریکا کے نئے صدر اس بات کی اجازت کبھی نہیں دیں گے کہ ان کے موجودہ مواقف، وزارت خارجہ اور وزارت دفاع کی پالیسیوں سے متاثر ہوں۔ یہ بات سب کو پتا ہے کہ اقتصادی مسائل میں ٹرمپ کو کافی تجربہ ہے اور اسی لئے وہ مسائل کو درک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جلدی سے کوئی معاملہ طے کر لیتے ہیں۔ ہی سبب ہے کہ انہوں نے امریکا کے باقی صدور کے برخلاف امریکا کے قدیمی حریف کی حیثیت سے روس کے ساتھ گفتگو کی بات کہی۔