الوقت - بین الاقوامی امور کے مشہور تجزیہ نگار ڈاکٹر سعد اللہ زارعی نے تہران میں "علاقے کی تبدیلیاں اور ایران کی خارجہ پالیسی" عنوان کے تحت منعقد کانفرنس میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ایران کی مطلوبہ خارجہ پالیسی کے نظریات پر روشنی ڈالی۔ اس کانفرنس میں علاقے اور بین الاقوامی امور کے مشہور پروفیسرز اور دانشور موجود تھے۔ ڈاکٹر زارعی نے اس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ایشیا کی سیکورٹی کا راز عوام کی سیکورٹی اور حفاظت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کے ذریعے عوام کے لئے جو سیکورٹی پیدا کی جاتا ہے وہی اصل سیکورٹی ہے۔ ڈاکٹر زارعی کے مطابق یہی سیکورٹی معاشرے کی سیکورٹی پر منتج ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورت میں دوسرے نظریات میں ممکن ہے کہ یہ سیکورٹی حاصل نہ ہو اسی لئے یہ فرض کیا جاتا ہے کہ عوام میں اس طرح کی سیکورٹی کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ یعنیی اس وسیع اور پائیدار سیکورٹی کو پیدا کرنے کے لئے عوام کی توانائی، اس نظریہ کا مقدمہ ہے۔ ان کہنا تھا کہ اسی لئے یہ نظریہ دوسرے نظریات کے مقابلے میں نہیں بلکہ اس کے برعکس ہے۔ ڈاکٹر زارعی عوام کی سیکورٹی کی بنیاد کی پانچ خصوصیات بیان کرتے ہیں۔
1- اس نظریہ کی پہلی خصوصیت ہے کہ اس میں معاشرے کے تمام افراد شامل ہوتے ہیں اسی لئے یہ جامع نظریہ ہے۔ در حقیقت معاشرہ میں مختلف طبقے اور قوم کے افراد رہتے ہیں اسی لئے وہ سیکورٹی جو عوامی بنیاد پر وجود میں آتی ہے، وہ وسیع سیکورٹی اور مکمل بنیادی ڈھانچے کے لئے ضروری ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکورٹی کے اس ڈھانچے میں معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں اور سی بنیاد پر معاشرے میں ایک پائیدار اور مضبوط سیکورٹی کی بنیاد وجود میں آتی ہے۔
2- عوامی سیکورٹی کا نظریہ قابل تقسیم و وتجزیہ نہیں ہوتا۔ یہی سیکورٹی معاشرے کے تمام شعبوں میں جاری رہتی ہے اور صرف معاشرے کے ایک شعبے یا حصے پر منحصر نہیں ہوتی، اس میں معاشرے کے تمام شعبے شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سیکورٹی کو حکومت پر منحصر نہیں ہونا چاہئے، جیسا کہ ایران میں شاہ کے زمانے میں تھا۔ اسی طرح سیکورٹی کسی ایک گروہ یا قوم کے مفاد پوری کرنے والی نہیں ہونی چاہئے جیسا کہ امریکا میں سفیدفام کی سیکورٹی سیاہ فام سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ یہاں پر سیکورٹی کسی خاص طبقہ سے وابستہ ہے۔ اسی لئے جب عوامی سیکورٹی کی بات کی جاتی ہے تو یہ سیکورٹی عام ہوتی اور اس میں معاشرے کے تمام افراد اور تمام طبقے کے شامل کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور لبنان میں جب ہم اس نظریہ کی مثال دیکھتے ہیں تو ہماری نظر حزب اللہ لبنان پر پڑتی ہے جس نے تمام لبنانیوں کی سیکورٹی فراہم کی۔ یہ گروہ نے اسرائیل کے مقابلے میں پائمردی اور استقامت کا مظاہرہ کیا اور حالیہ برسوں میں عوام کی سیکورٹی کے لئے اس نے ملک میں بہت سے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا۔
3- عوامی سیکورٹی کی تیسری خصوصیت اس کا ذاتی اور شخصی عنصر ہے۔ یعنی عوام کی بنیادی سیکورٹی ذاتی ہے نہ کہ کسب کی ہوئی۔ اسی ذاتی عنصر کی وجہ سے معاشرے کا ہر فرد ہر طرح کے خطروں اور مشکلات کے مقابلے میں مزاحمت کرتا ہے تاکہ اس اس مشکل میں معاشرہ گرفتار نہ ہونے پائے۔
4- عوامی سیکورٹی کی چھوتھی خصوصیت انصاف اور عدالت ہے۔ در حقیقیت عوامی سیکورٹی ایک عطیہ الہی اور گوہر انسانی ہے جو عدالت و انصاف کے تناظر میں پرورش پاتا ہے۔ مولائے متقیان حضرت علی ابن ابی طالب جہاد کے باب میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر جہاد نہ ہو تو کسی بھی شعبے میں سیکورٹی نہیں ہوگی اور اگر معاشرے میں جہاد کی رسم جاری ہے تو معاشرے پر ایسی شرافت و کرامت سایہ فگن ہوگی کہ ہر چیز اپنی جگہ مستقر ہوگی۔
5- عوامی سیکورٹی کی پانچویں خصوصیت کرامت انسانی کی حفاظت ہے۔ یعنی یہ نظریہ انسانی شخصیت کے احترام کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے اور یہ معاشرے میں پنہا صلاحیتوں کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو ہم آج علاقائی سطح پر مزاحمت کار گروہوں کے درمیان دیکھ رہے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے مشہور تجزیہ نگار ڈاکٹر سعد اللہ زارعی کا کہنا تھا کہ عوامی سیکورٹی کی روش، اسلحہ اور گولہ بارود پر منحصر نہیں ہوتی۔ یہ سیکورٹی، جنرنلوں اور کرنلوں کی سیکورٹی نہیں ہے بلکہ عوام کی بنیادی سیکورٹی یک ثقافتی سیکورٹی ہے جو کسی بھی طرح کی سرحدوں کو قبول نہیں کرتی۔
ڈاکٹر زارعی کا کہنا ہے کہ اسی نظریہ کو خارجہ پالیسی میں عوام کی بنیادی سیکورٹی کی خارجہ پالیسی کی حیثیت سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت ہمارے لئے مزید واضح اور روشن ہو جاتا ہے جب ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ ہمیں تین طرح کی خارجہ پالیسیوں کا سامنا ہے۔
1- ملکوں، گروہوں اور حکومتوں سے جاری تعلقات سے استفادے کی روش ہے۔ اس میں سفارتخانے اور ممالک میں آمد و رفت کا موضوع شامل ہو جاتا ہے اور در حقیقت اس طرح کی خارجہ پالیسی، حکومتوں کے درمیان رابطے کا انتظام کرتی ہے۔
2- دوسری روش معاشرے کے صرف اجتماعی شعبے سے رابطے اور تبدیلیوں پر مبنی ہے جس میں سفارتی انداز سے ہٹ کر یک حکومت کی سرنگونی اور دوسری حکومت کو بر سر اقتدار لانے کی کوششیں ہوتی ہیں۔
3- تیسری روش میں سفارتی حدوں کی حفاظت اور حکومتوں کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات پر تاکید کی جاتی ہے۔ اس روش کی بہترین مثال ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی آئی آر جی سی ہے جس نے نظام کے چلانے والے تینوں حصوں کے ساتھ بھرپور تعاون ملک کے اندر سیکورٹی نافذ کی اور شام، عراق اور لبنان میں بھی یہاں کے عوام اور حکومت کی خواہشات کے مطابق، عوام کی بنیادی سیکورٹی نافذ کی ہے۔