الوقت - برطانوی حکومت نے یمن کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی نہ کرنے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔
کچھ برطانوی ممبران پارلیمنٹ اور بین الاقوامی تنظیموں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دے۔
سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی کی مخالفت کرنے والوں کے مطابق، اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ سعودی عرب ان ہتھیاروں کو یمن کے عام شہریوں کے خلاف استعمال کرکے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہو۔
تاہم برطانوی حکومت نے اس طرح کی کسی بھی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے ان ہتھیاروں کا استعمال برطانیہ کے استعمال کے معیاروں کے مطابق ہے۔
واضح رہے کہ26 مارچ 2015 سے سعودی عرب نے یمن پر وسیع حملے شروع کئے ہیں جو اب تک جاری ہیں لیکن انسانی حقوق کے دفاع کا دعوی کرنے والوں کی نظریں سعودی عرب سے ہونے والے مفاد پر ٹکی ہوئی ہیں لہذا یمنی عوام کا قتل عام اور یمن میں ہونے والے جرائم پر معنی خیز خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن نے اس ملک کے ممبران پارلیمنٹ سے مذاکرات میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے ہاتھوں ہتھیاروں کی فروخت انسانی حقوق کی پائمالی کی واضح مثال ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یمن پر بمباری انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی نہیں ہے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ نے یمنی بچوں کے قاتل سعودی عرب کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یمن میں عام شہریوں پر آٹھ بار بمباری سے متعلق الزامات سے متعلق ریاض نے جو رپورٹ پیش کی ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ قانونی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے برطانیہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کر دے۔
یہ ایسی حالت میں ہے جب اس سے پہلے یورپی پارلیمنٹ نے یمن میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی وجہ سے سعودی عرب کے ہاتھوں ہتھیاروں کی فروخت روکنے کا اعلان کیا تھا۔
واضح رہے کہ جب سے سعودی عرب نے یمن پر وحشیانہ حملے شروع کئے ہیں ہے تب سے برطانیہ نے تقریبا تین ارب پاونڈ کے ہتھیار سعودی عرب کو فروخت کئے ہیں۔
ہتھیاروں کی تجارت سے جدوجہد کرنے والے كپین کی سرکاری رپورٹ کے مطابق سعودی عرب، برطانیہ کے ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار رہا ہے اور 2010 سے اب تک وہ 6 ارب 70 کروڑ پاؤنڈ کی قیمت کے ہتھیار برطانیہ سے حاصل کر چکا ہے۔
اس بات کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ سعودی عرب نے صیہونی حکومت سے ہتھیاروں کی خریداری ہے۔
سوشل میڈیا پر سرگرم و سرخیوں میں چھائے سیاسی کارکن مجتہد نے اپنے ٹوئٹر کے صفحے یہ خبر شائع کی کہ جنوبی افریقہ کی ثالثی سے سعودی عرب نے صیہونی حکومت سے متعدد ڈرون طیارے خریدے ہیں ۔ مجتهد نے سعودی عرب کے ان سرکاری ذرائع کی خبروں کو منافقانہ قرار دیا جس میں کہا گیا ہے کہ جنوبی افریقہ میں سعودی عرب ڈرون طیاروں کا کارخانہ لگا رہا ہے۔
مجتہد نے کہا کہ سعودی عرب اس طرح کی خبروں کے ذریعہ اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش میں ہے کہ اس نے صیہونی حکومت سے 40 کروڑ ڈالر کے ڈرون طیارے خریدے ہیں۔ یہ ڈرون طیارے جنوبی افریقہ سے اسپیيرپارٹس کی شکل میں پر سعودی عرب پہنچائے گئے ہیں جہاں انہیں اسمبل کیا جائے گا۔
آل سعود اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کے نئے پہلوؤں کا انکشاف ایسی حالت میں ہوا ہے کہ کہ سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس افسر انور عشقي نے حالیہ مہینوں میں کئی بار مختلف ممالک اور خود مقبوضہ فلسطین میں صیہونی حکام سے ملاقات کی ہے۔ انور عشقي کو سعودی عرب- صہیونی حکومت تعلقات کو آہستہ آہستہ ظاہر کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔