الوقت - عراقی کردستان علاقے کی حکومت کے نمائندے کا کہنا ہے کہ اگر اتحادی فوجیں اور ایرانی نہ ہوتے تو عراق، داعشیوں کا عراق ہوتا۔
ناظم دباغ ایران میں کردستان کی علاقائی حکومت کے نمائندے ہیں اور 17 برسوں سے تہران میں مقیم ہیں۔ وہ صدام کی بعثی حکومت کے زمانے میں پیٹریاٹک یونین آف کردستان کے سکریٹری جنرل جلال طالبانی کے نمائندے تھے اور 2007 سے ایران کے ساتھ عراقی کردستان کے علاقے کے کوارڈینیٹر کی حیثیت سے سرگرم ہیں۔ ان کا شمار عراقی کردستان کی مشہور شخصیات میں ہوتا ہے۔ ایران کی خبر رساں ایجنسی نے ان سے علاقائی مسائل اور عراق کی صورتحال پر انٹرویو لیا۔ پیش خدمت ہیں اس کے اہم اقتباسات:
تسنیم : جناب عالی، ہم عراق کے اہم شہر موصل کی آزادی سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ موصل کی آزادی کی مہم میں کرد پیشمرگہ کےجوان بھی شامل ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں اور کیا آپنے بغداد حکومت سے آپ کی شرطوں پر مفاہمت ہوگئی ہے؟
دباغ : حقیقت یہ ہے کہ ہماری جو پیشگی شرط تھی اس کا ہم نے اعلان بھی کر دیا تھا اور ہم چاہتے تھے کے موصل سٹی کی آزادی کی مہم میں شامل ہونے سے پہلے موصل سٹی کے مینیجمنٹ کے بارے میں بغداد کی مرکزی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ ہو جائے لیکن افسوس کے یہ نہیں ہو پایا اور موصل کی آزادی کے بعد مسئلہ کو ٹال دیا گیا۔
تسنیم: جناب دباغ! گفتوگو را از موضوع مهم آزادسازی موصل آغاز می کنم۔ در روزهای اخیر فاز اول عملیات بعد از دو هفته جنگ، تمام شده است۔ جنابعالی در آذر ماه سال گذشته از درخواستهای مکرر برای مشارکت کُردها در عملیات موصل سخن گفتید و اعلام کردید نیروهای پیشمرگه بهصورت مشروط در این عرصه حضور می یابند۔ چه شد که کُردها در عملیات موصل شرکت کردند؟ آیا درباره شروطتان با بغداد توافق کردید؟
دباغ: واقعیت این است که ما پیش شرط هایی داشتیم که آنها را اعلام هم کردیم و می خواستیم قبل از شرکت در عملیات موصل درباره مدیریت آینده موصل با حکومت مرکزی به توافقاتی برسیم، اما متأسفانه کار به بررسی این شروط نرسید و به بعد از آزادسازی موصل موکول شد۔
تسنیم : یعنی اب آپ بغیر پیشگی شرط کے موصل کی مہم میں شریک ہیں ؟
دباغ : جی ہا، پہلے مفاہمت ہونی تھی لیکن بعد میں بغیر پیشگی شرط کے ہم نے اقدام شروع کر دیا۔
تسنیم : اردغان کا بھی دعوی ہے کہ تاریخی لحاظ سے موصل ترکی کا حصہ ہے ؟
دباغ : اگر ہم تاریخی لحاظ سے جائزہ لینا چاہیں تو عراق کا کچ حصہ ایران کا ہے، کچھ اردن کا ہے اور کچھ سعودی عرب ککا ہے جبکہ کچھ ترکی کا ہے لیکن سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا کہ حکومت عثمانی کا شیرازہ بکھرنے کے بعد عراق وجود میں آیا ہے اور اقوام متحدہ میں ایک ملک کی حثیت سے باضابطہ قبول ہوا۔ یہاں پر یہ بات کہنا اہم ہے کہ جب موصل کا ذکر آتا ہے تو اس سے مراد صرف صوبہ موصل نہیں ہوتا بلکہ اربیل، سلیمانیہ، دھوک، کرکوک اور موصل جیسے پورے علاقے کو شامل کیا جاتا ہے۔
تسنیم : موصل کی آزادی کی مہم میں ترکی شریک ہے ؟ انقرہ موصل سٹی کی آزادی کی مہم میں شامل ہونے پر اتنا اصرار کیوں کر رہا ہے؟
دباغ : اس با سبب مجھے پتا نہیں ہے، شاید یہ ہو سکتا ہے کہ ان کو پتا ہے کہ موصل میں داعش کے اقتدار کا خاتمہ ہو جائے گا اسی لئے وہ اس کامیابی میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔ ان کی موجودگی ممکنہ طور پر موصل کے اہل سنت سے ہماہنگی کے ساتھ ہوئی ہو لیکن اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
تسنیم : آپ کی نظر میں ایران اور اتحادی فوجیں داعش کے مقابلے کی مہم خاص طور پر موصل شہر کی آزادی کی مہم میں کس حد تک عراق کے ساتھ تھیں؟
دباغ : در حقیقت اگر اتحادی فوجیں اور ایران نہ ہوتا تو عراق، داعشیوں کا عراق ہو جاتا۔