الوقت - بحران شام کے وسیع ہونے اور ممکنہ طور پر اس کے شعلوں کے سرحد کے اس پار جانے کے مد نظر امریکا اور روس نے جنگ بندی کے لئے متعدد کوششیں کیں اور اسی سلسلے میں آخری جنگ بندی 12 ستمبر 2016 کو نافذ ہوئی لیکن واشنگٹن کی جانب سے وعدہ خلافی کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔ اس مفاہمت کی ناکامی سے جو ہر وقت سے زیادہ شام میں ایک راہ حل تک پہنچنے فراہم کر رہی تھی، اس بات کا پتا چلتا ہے کہ شام کا بحران اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جس کو کاغذ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے مفاد ایک دوسرے کے متضاد تھے۔ شام کے بحران میں شامل بڑی طاقتوں نے اپنے مطالبات پر اعتماد کرتے ہوئے سمجھوتے کے اصول کو پائمال کر دیا۔ اس بنیاد پر اب مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے راستے میں کون سے چیلنج ہیں جو مفاہمت کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں؟ ان اہم مسائل کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
1 - بحران شام کے آغاز سے ہی امریکا اور روس کے درمیان بحران شام کے حوالے سے شدید اسٹرٹیجک اختلافات پائے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر ایسی حالت میں امریکا کا ہمیشہ سے ہی یہ مطالبہ رہا ہے کہ شام کی فضائیہ شامی حکومت کے مخالفین کے زیر کنٹرول علاقوں پر بمباری روک دے اور اس کے مقابل میں روس کا ہمیشہ سے ہی مطالبہ رہا ہے کہ امریکا، بشار اسد کے مخالف جنگجوؤں کے ساتھ تعاون اور ان کی حمایت روک دیے۔ اس مسئلے کے علاوہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان حمایت کے طریقہ کار کے بارے میں شدید اختلافات ہیں جس کی وجہ سے بحران شام مزید پیچیدہ ہوتا گیا۔
2 - بحران شام کو پانچ سال ہو چکے ہیں آج بھی تمام فریقوں کی جانب سے جنگ و جدال کا سلسلہ جاری ہے اور فوج اور عام شہری اس کی قربانی چڑھ رہے ہیں۔ جنگ و جدال اور جھڑپوں نے شام کے شہریوں کی زندگی تباہ کرکے رکھ دی ہے۔ ہر روز دسیوں افراد موت کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں جب موجودہ وقت میں جنگ و جھڑپیں دونوں فریق کے درمیان طبیعی چيز میں تبدیل ہوچکی ہے، یہ امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ امریکا اور روس کے درمیان پائیدار سمجھوتہ ہو جائے اور عام شہریوں کی خونریزی بند ہو جائے۔
3 - بحران شام میں موجود داخلی طاقتوں کے مطالبات اور رد عمل کا منطقی نہ ہونا، اس ملک میں امن کے عمل کی ناکامی کا اہم سبب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بحران شام میں شامل فریقوں نے کبھی بھی عقل و خرد کے ساتھ دوسرے فریق کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ دونوں ہی فریق ایک دوسرے پر برتری کی کوشش میں رہے اور زیادہ سے زیادہ امتیاز حاصل کرنے کے درپے رہے جس کی وجہ سے شام میں پائیدار امن کا قیام ناممکن ہو گیا۔
4 - شام میں امن کے قیام کی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک داعش، نصرہ فرنٹ، جیش الاسلام، احرار الشام اور دیگر انتہا پسند گروہوں کی موجودگی ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر شام میں خونریزی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ یہ جہادی جنگجو دوسرے گروہوں کو اقتدار کے قابل نہیں سمجھتے اور کفار اور مشرکین سے جہاد کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ شام میں جو امن کا قیام نہیں ہو پا رہا ہے اس میں اس گروہ کے اہم کردار کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
5 - شام کا بحران اتنا وسیع ہے کہ اس نے ملک کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور موجودہ وقت میں جس کا جہاں پر قبضہ ہے وہ اسے اپنا علاقہ سمجھ رہا ہے۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ دنیا کی دو بڑی طاقتیں امریکا اور روس کے درمیان ہونے والا سمجھوتہ، اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے پسپائی اختیار کرنے اور ان سرزمینوں کو خالی کرنے پر مجبور کر سکے۔ دوسرے الفاظ میں جس سرزمین پر خون سے قبضہ کیا گیا ہے صرف خون سے ہی چھوڑی جائے گی۔