الوقت - مدھیہ پردیش کی بھوپال سینٹر جیل سے اتوار کی دیر رات فرار ہونے والے ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے آٹھوں کارکنوں کو پولیس نے پیر کو خصوصی آپریشن میں بھوپال سے 10 کلو میٹر دور واقع گاؤں میں فرضی تصادم میں مار دیا۔ ریاستی پولیس کے ایک اعلی افسر نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دارالحکومت بھوپال کے مضافات میں آٹھوں دہشت گرد پولیس کے ساتھ انکاؤنٹر کے دوران مارے گئے تاہم ہندی چینل’ آجتک‘ نے انکاؤنٹر کے مقام کا ویڈیو نشر کرتے ہوئے اس کی پول کھول دی۔
اس ویڈیو فوٹیج میں پولیس اہلکاروں کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ سیمی کے مفرور 4 کارکنوں سے بات چیت چل رہی ہے جبکہ 3 ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ علاوہ از ایں اس ویڈیو میں انکاؤنٹر کے بعد ایک مفرور کی لاش پر پولیس اہلکاروں کو گولیاں چلاتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والے سیمی کے کارکنوں کے پاس کوئی اسلحہ برآمد نہیں کیا جاسکا ہے۔ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد اس پورے انکاؤنٹر پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔
دوسری طرف افسروں نے بتا کہ دیوالی کی رات میں تقریبا 2 بجے سینٹرل جیل میں ایک اہلکار رما شنکر کو قتل کرکے فرار ہونے والے ان ملزمین کو تلاش کرنے کے لئے خصوصی مہم چلائی گئی تھی۔ اس میں ریاست کی اے ٹی ایس اور ضلع پولیس فورس کے جوان شامل ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران صبح بھوپال کے بیرونی علاقہ اچار پورہ کے نزدیک کچھ لوگوں کے موجود ہونے کی اطلاع ملی۔ اس پر پولیس نے فوری طور پر کاروائی کرکے ایک پہاڑی پر ان ملزمین کو گھیر لیا۔ انہوں نے وہاں سے پولیس پر پتھر برسانے شروع کردئیےتھے جس کے جواب میں پولیس نے بھی گولیاں چلائیں جس میں آٹھوں مسلم نوجوان جاں بحق ہوگئے۔ انکاؤنٹر کی جگہ کو چاروں طرف سے پولیس نے گھیر رکھا تھا اور ارد گرد کے علاقوں کی باریک بینی سے تلاشی لی گئی۔
ادھر پیر کی صبح ہونے والے فرضی تصادم پر سوال اٹھانے والے ویڈیوز ایک کے بعد ایک سامنے آرہے ہیں۔ ان ویڈیوز میں کہیں پولیس قیدیوں کو گھیرتے ہوئے نظر آرہی ہے ، کہیں ان پر فائر کرتے ہوئے اور کہیں ان کی جیب سے ہتھیار نکالتے ہوئے ان ویڈیوز میں یہ کہیں بھی نظر نہیں آرہا کہ یہاں انکاؤنٹر جیسے حالات پیدا ہوگئے تھے۔ عینی شاہدین جو بتا رہے ہیں اس سے بھی اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو رہی ہے کہ پولیس نے واقعی انکاؤنٹر کیا ہے۔ کئی گاؤں والوں نے بھی ویڈیو بنائے ہیں جو ایک ایک کرکے سوشل میڈیا پر شیئر ہورہے ہیں اور ایم پی کی بی جے پی حکومت اور اس کی پولیس کی پول کھول رہے ہیں۔ ویڈیوز کی وجہ سے پولیس کی کارروائی پر اٹھنے والے سوالات کے تعلق سے جیل حکام سے لے کر وزیر تک سب کے پاس صرف ایک ہی جواب ہے کہ ان سب کی تحقیقات ہورہی ہے جبکہ وزیر اعلی سے لے کر مرکزی وزیر تک ملک کی سیکورٹی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ان باتوں کے درمیان ریاستی حکومت نے صاف کردیا ہے کہ این آئی اے کی تحقیقات قیدیوں کے فرار ہونے پر مرکوز ہوگی اور اس انکاؤنٹر کے صحیح یا غلط ہونے کی کوئی جانچ نہیں ہوگی۔
ریاست کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے اپنی پولیس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ ’’پولیس نے بہادری کا کام کیا ہے۔ ایسے حالات میں جب ہمیں اپنی پولیس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے ہم اس پر سوال اٹھا رہے ہیں جو ملک کی سلامتی کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے بالکل واضح انداز میں کہا کہ پولیس کے رول کی کوئی جانچ نہیں ہوگی اور نہ ہی اس پر کسی کو سوال اٹھانے کی اجازت دی جائے گی۔ شیو راج سنگھ چوہان جو اس واقعہ میں مارے جانے والے پولیس اہلکار کے گھر اظہار تعزیت کیلئے گئے تھے، انہوں نے کہا کہ انکاؤنٹر ہوا ہے یا نہیں اس کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ پولیس نے بہترین کام کیا ہے اور اسے اس کا صلہ ملنا چاہئےاس لئے پولیس کی کارکردگی پر سوال نہ اٹھائے جائیں تو بہتر ہے کیوں کہ انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر دہشت گردوں کو ماراہے۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ بھوپندر سنگھ نے بھی کہا کہ معاملہ قومی جانچ ایجنسی (این آئی اے) کو دیا چکا ہے ظاہر ہے اب یہ تحقیقات سے ہی سامنے آئے گا کہ فرار ہونے اور مارے جانے کے درمیان کن کن لوگوں نے کیا کیا کردار ادا کیا لیکن انہوں نے بھی یہ واضح کردیا کہ جانچ صرف فرار ہونے کے معاملے کی ہوگی۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
ادھر سیمی کے 8 کارکنوں کے جیل سے فرار ہونے کے بعد ان کی انکاؤنٹر میں ہلاکت پر کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ اور کمل ناتھ نے سوال اٹھائے ہیں جبکہ عام آدمی پارٹی کی لیڈر الکا لامبا نے بھی اس کی معتبریت پر شبہ ظاہر کیا ہے۔ ادھر سابق مرکزی وزیر اور ترنمول کانگریس کے سینئر لیڈر سلطان احمد نے عدالتی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طریقے سے انکاؤنٹر کو انجام دیا گیا ہے اور جو تصاویر منظر عام پر آئی ہیں اس سے سوالات کا پیدا ہونا فطری امر ہے اور عدالتی جانچ کے ذریعہ اصل حقائق سامنے آسکتے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر سلطان احمد نے کہا کہ ہندوستان کوئی پولیس اسٹیٹ نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کوئی ایمرجنسی نافذ ہے کہ پولیس کے عمل پر سوال نہ کھڑا کیا جائے اور سوال کھڑا کرنے والوں کو ملک دشمن بتانا فسطائی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے منی پور میں ہوئے انکاؤنٹر پر اعتراض کو تسلیم کرتے ہوئے جانچ کی ہدایت دی ہے تو پھر اس انکاؤنٹر کی جانچ کیوں نہیں ہوسکتی۔
انکاؤنٹر پر اٹھنے والے سوال
کیا مدھیہ پردیش کی سب سے محفوظ جیل کی 33 فٹ اونچی دیوار کو پھلانگنا آسان تھا؟ اس جیل کو سیکوریٹی انتظامات کیلئے عالمی رینکنگ سے نوازا گیا ہے۔
اگر ہتھیار ان کے پاس تھے تو وہ کیسے ہاتھ لگے؟ کیا جیل میں ان کا کوئی مددگار تھا؟ اگر واقعی کوئی تھا تو اس کے تعلق سے انکوائری کیوں نہیں کروائی جارہی ہے؟ سرکار خاموش کیوں ہے؟ سیمی کے مبینہ کارکنوں کے پاس ہتھیار تھے یا نہیں، اس بابت پولیس اہلکاروں اور حکومت کے بیانات متضاد کیوں ہیں؟
ان کے پاس نئی گھڑیاں، لباس اور جوتے وغیرہ کہاں سے آئے؟ اس تعلق سے میڈیا بھی زورو شور سے سوال اٹھا رہا ہے۔ تصاویر میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس یہ تمام چیزیں ہیں۔
اگر ہتھیار کو حاصل کرنے کیلئے ان کے پاس جیل کے باہر کنکشن تھا تو فرار ہونے کیلئے انہوں نے گاڑی کیوں نہیں حاصل کی؟ وہ اتنی دور تک پیدل چل کر کیوں گئے؟
ایک بھی پولیس اہلکار انکاؤنٹر میں زخمی کیوں نہیں ہوا؟جبکہ دعوی یہ کیا جا رہا تھا کہ ان دہشت گرد وں کے پاس ہتھیار ہیں۔
جیل کے سی سی ٹی وی کیمرے کام کیوں نہیں کر رہے تھے؟ کیا یہ وقتی طور پر بند ہوئے یا ان میں کوئی بڑی تکنیکی خرابی آگئی تھی؟
سیمی کارکن ایک دوسرے سے جدا ہونے کے بجائے ایک ساتھ سفر کیوں کر رہے تھے؟ جبکہ جدا ہونے سے انہیں پکڑنا مشکل ہوتا۔
تمام جدید ہتھیاروں سے لیس مدھیہ پردیش پولیس۔اے ٹی ایس اور ایس ٹی ایف کی مشترکہ ٹیم، کیا یہ کہہ رہی ہے کہ ان 8 مفرور قیدیوں سے نمٹنے کیلئے جن کے پاس صرف ایک ہی تیز دھار ہتھیار تھا، انہوں نے اپنی ساری طاقت استعمال کی ہے؟
جب صبح ساڑھے گیارہ بجے پولیس نے تمام ہتھیار برآمد کرلئے تھے تو شام تک ہتھیاروں کو ظاہر کیوں نہیں کیا گیا؟ جیل انتظامیہ اس وقت کیا کر رہی تھی جب 8 افراد لکڑی اور چادروں کی رسی بنا کر فرار ہورہے تھے۔ اس واچ ٹاور کا عملہ کہاں تھا؟
کیا کسی ایک قیدی کو بھی زندہ گرفتار نہیں کیا جاسکتا تھا کہ اس سے ضروری معلومات حاصل کی جاسکے؟ بھوپال کے قریب انکاؤنٹر کی جگہ یعنی اننکھیڑی گاؤں تک پہنچنے میں ان کی مدد کس نے کی؟ کیا ان افراد نے 9 گھنٹوں میں صرف 8 تا 10 کیلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا؟ واضح رہے کہ ایسے اور بھی سوالات ہیں جنکا جواب ریاستی حکام نے نہیں دیا ہےو۔