الوقت - شام اور عراق میں تعینات ترک فوجیوں کی تعیناتی کی مدت میں توسیع کا فیصلہ، عراقیوں اور شامیوں پر بجلی کی طرح پڑا کیونکہ بعض افراد کا خیال ہے کہ یہ صرف سرحد کی توسیع کے مد نظر کی گئی ہے۔ یہ موضوع عراقی اور شامی عوام کے لئے بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ہم نے عراق کے انسانی حقوق کے وزیر اور رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد مہدی البیاتی اور شام کے مشہور تجزیہ نگار پروفیسر طالب ابراہیم سے اس موضوع پر گفتگو کی۔
الوقت - ترکی کی پارلیمنٹ کے اس فیصلے پر عراق اور شام کا کیا رد عمل ہوگا؟
ڈاکٹر محمد البیاتی : عراق اور عراقی حکومت نے تمام حلقوں میں ملک سے ترک فوج کے نکلنے پر تاکید کی ہے اور اس موقف پر وہ شروع سے قائم ہے جبکہ ترک حکام کا کہنا ہے کہ پی کے کے کے افراد عراق میں موجود ہیں۔ ترک حکام کی یہ دلیل کافی نہیں ہے۔ ترک حکام اگر پی کے کے حوالے سے حق بہ جانب ہیں تو ان کو اس مسئلے پر اقوام متحدہ اور سیکورٹی کونسل جیسے بین الاقوامی اداروں سے رجوع کرنا چاہئے تھا لیکن ترک حکام اس غیر منطقی دلیل کو دوسرے اہداف کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ترک حکام کی دلیل کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں ہے، یہ سرا سر ملک کی حاکمیت اور اقتدار اعلی کی خلاف ورزی ہے اور ترک حکام کو اس پر جوابدہ ہونا ہوگا۔
اس سوال کے جواب میں شام کے مشہور تجزیہ نگار پروفیسر طالب ابراہیم کا کہنا تھا کہ شام اور عراق میں ترکی کی فوجی مداخلت کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ شام کی حکومت اور عوام، ترکی کے اس اقدام کی شدید مخالفت کر رہی ہے اور اس بنا پر شام کی حکومت ترکی کے اس اقدام کی سیکورٹی کونسل اور متعدد بین الاقوامی اداروں میں شکایت کر سکتی ہے۔ یہ فوجی مداخلت کا یہ سلسلہ جاری رہا تو عراق اور شام میں ترک فوج سے تصادم کا خطرہ ہے جو علاقے کے امن و استحکام کے لئے بہت زیادہ خطرناک ہے۔
الوقت – کیا ترک فوجی عراق کی بعشیقہ فوجی چھاونی میں ہی تعینات ہیں ؟ ترکی کی فوجی مداخلت پر حکومتوں کے اعتراض اور علماء کرام کے فتوے جن میں ترکی کے اس قدم کو غاصبانہ قبضے سے تعبیر کیا گیا ہے، آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر محمد مہدی البیاتی : جی ہاں حکومت کی اجازت کے بغیر ملک میں کسی بھی طرح کی فوجی مداخلت غاصبانہ قبضہ سمجھا جاتا ہے۔ عراقی فوج آئندہ کچھ دنوں میں موصل سٹی کی آزادی کی مہم شروع کرنے والی ہے اور اس کے نتائج میں دونوں ممالک کی فوج کے درمیان تصادم کا خطرہ برقرار ہے۔ ترکی کے حق میں ہے کہ وہ وقت گزرنے سے پہلے ہی اپنی فوج کو عراق سے نکال لے، نہیں تو عراقی فوج کے محاصرے میں ترک فوج آجائے گی جیسا کہ عراقی فوج نے داعش کا محاصرہ کر لیا ہے۔
اس سوال کے جواب میں شام کے تجزیہ نگار پرفیسر طالب ابراہیم کہتے ہیں کہ جو مسئلہ عراق میں ہے وہی شام میں بھی ہے بلکہ شام میں تو اور بھی خطرناک مسئلہ ہے کیونکہ شام میں روس موجود ہے۔ ترکی کی ایک غلطی ہی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ شامی اور روسی حکام کے صبر کی بھی حد ہے اور اس چیز کو ترک حکام کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
الوقت - شام اور عراق میں فوجی مداخلت کے کیا اہداف ہو سکتے ہیں ؟
ڈاکٹر محمد مہدی البیاتی : عراقی عوام، حکومت اور اس ملک کے دینی مراجع کرام نے تمام موانع کے باوجود موصل سٹی کی آزادی کا عزم ظاہر کیا ہے اور موصل بھی ديگر عراقی شہروں کی طرح آزاد ہو جائے گا، جو افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی فوجی مداخلت عراقی حکومت پر دباؤ کے لئے ہے تو وہ غلط سمجھ رہے ہیں، عراقی حکومت اپنے خلاف ہونے والی تمام سازشوں کو ناکام بنا دے گی۔ بہرحال عراق کے دیگر شہروں کی طرح موصل سٹی بھی جلد آزاد ہو جائے گا۔۔
شام کے مشہور تجزیہ نگار پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ترک حکومت یہ تصور کر رہی ہے کہ علاقے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے باوجود اس کے اس نے ملک میں اپنے سیاسی مخالفین کا خاتمہ شروع کر دیا ہے۔ ترکی، شام اور عراق کےبحران میں اپنا کردار دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترکی کے لئے موصل اور حلب کا مسئلہ بہت ہی حساس ہے اسی لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ترک حکومت کے اس اقدام کا مقصد، عراق اور شام کی حکومت کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کرنا ہے لیکن ایسا ہوگا نہیں، شام اورعراق کے حالات اب پوری طرح حکومت کے حق میں ہیں۔