الوقت - حالیہ دنوں میں طالبان کی جانب سے ملک کے مختلف علاقوں پر قبضے کے لئے کوششیں تیز ہو گئي ہیں اور ملک کی سیکورٹی صورتحال پوری طرح سے خستہ نظر آ رہی ہے۔ اب یہ خبر موصول ہو رہی ہے کہ طالبان نے افغانستان کے شمالی شہر قندز پر قبضے کے لئے وسیع حملہ کیا ہے، گرچہ اس شدید حملے کی وجہ سے اس اہم شہر پر طالبان کا قبضہ نہیں ہو سکا ہے تاہم یہ ملک کی حساس اور خستہ صورتحال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کے جنگجوؤں نے ملک کے شمال مشرقی علاقے قندوز میں ہماہنگی حملہ شروع کیا ہے۔ قندوز صوبے کے گورنر کے ترجمان محمود دانش نے کہا کہ سرکاری فوج نے پیر کو طالبان کے وسیع حملوں کو ناکام بنا دیا۔
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، طالبان نے قندوز کے چاروں طرف سے حملہ کیا تھا تاہم سیکورٹی اہلکار انہیں پسپا کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ قندوز کے پولیس سربراہ محمد اللہ باہج کا کہنا ہے کہ شہر میں چاروں طرف سکیورٹی اہلکار طالبان سے بر سر پیکار ہیں۔ در ایں اثنا طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا ہے کہ طالبان نے قندوز کے بعض علاقوں پر قبضہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ قندوز گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں پوری طرح طالبان کے کے قبضے میں چلا گیا تھا اور یہ پہلی بار ہے جب اس گروہ نے پندرہ سال بعد شہر کے ایک اہم علاقے پر قبضہ کیا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ سیکورٹی اہلکار، کچھ ہی دن بعد طالبان کے قبضے سے اس علاقے کو آزاد کرانے میں کامیاب رہے تھے۔
حساس سیکورٹی صورتحال :
پیر کی صبح کا شدید حملہ، افغانستان میں بروکسل کانفرنس کے انعقاد سے ٹھیک ایک دن پہلے انجام پایا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ افغانستان کی سیکورٹی صورتحال بہت ہی خستہ ہے۔ یہ ایسی صورت میں ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے فوجی، ملک کے صرف دو تہائی علاقوں پر ٹھیک ٹھاک کنٹرول رکھتے ہیں۔ دوسری جانب یہ حملے ایسی حالت میں ہوئے ہیں کہ طالبان نے نہ صرف قندوز میں بلکہ اسٹرٹیجک اہمیت کے حامل ہلمند صوبے سمیت مختلف علاقوں پر اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
گزشتہ سال قندوز صوبے کا سقوط در حقیقت 2014 کے بعد سے جب سے افغانستان سے بین الاقوامی فوجیں نکلیں ہیں، مغرب کی حمایت یافتہ اس حکومت کے بہت بڑی کاری ضرب تھی۔ دوسری جانب امریکا کی جانب سے حکومت کی حمایت بھی خطرناک حد تھی کیونکہ امریکا کے جنگی جہازوں نے صوبہ قندوز کے ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈر کے اسپتال پر حملہ کر دیا جس میں 42 افراد جاں بحق ہوئے۔
صرف زمین پر قبضے کا مسئلہ ہے؟
حالیہ دو دنوں سے شائع ہونے والی خبروں کی بنیاد پر طالبان نے قندوز پر تازے حملے کے ساتھ ہی اس شہر میں مزید کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کی اہمیت شاید طویل مدت میں موجودہ حالات سے زیادہ ہو۔ اسی تناظر میں افغانستان کے شمالی صوبے قندوز کی صوبائی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ قندوز صوبے کے اسکولوں کے زیادہ تر سبجیکٹ طالبان معین کرتے ہیں یا طالبان پڑھاتے ہیں۔
برخی از اعضای شورای ولایتی قندوز میگویند که برخی از دانشآموزان مدارس قندوز نیز به صفوف طالبان پیوستهاند. طالبان در مدارس معلمان و مدیرانی را تعیین کردهاند که از دولت افغانستان حقوق دریافت میکنند. توریال کاکر، معاون شورای ولایتی قندوز نیز به رادیو آزادی تایید کرد که بیش از نیمی از مدارس این ولایت تحت کنترل و اداره طالبان قرار دارد.
ہلمند صوبے کے حالات کیسے ہیں ؟
گزشتہ روز ایسی خبریں شائع ہوئیں جن میں کہا گیا کہ طالبان نے ہلمند صوبے کے اسٹرٹیجک علاقوں پر حملے جاری رکھتے ہوئے اس گروہ کے جنگجو اس صوبے کے دار الحکومت لشکرگاہ سے نزدیک ہوگئے ہیں۔ اس بنیاد پر باوجود اس کے افغان حکومت کے جنگی طیاروں نے امریکا کے جنگی طیاروں کی مدد سے صوبہ ہلمند میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جھڑپوں کا رخ بدل گیا اور طالبان نے کئی علاقوں میں پیشرفت کی۔