الوقت - افغانستان میں حکومت اور گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔ معاہدے پر گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی اور اعلی امن کونسل کے نمائندوں نیز افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر نے کابل میں دستخط کئے۔
گزشتہ جمعرات کو ہونے والے اس معاہدے کی رو سے حکومت افغانستان، حکمت یار اور ان کے دیگر ساتھیوں کو قانونی تحفظ دے گی اور انہیں ہرطرح کی قانونی کاروائی سے استثنی حاصل ہوگا۔ اس کےعلاوہ افغانستان کی حکومت، اقوام متحدہ سے یہ درخواست کرے گی کہ حزب اسلامی کا نام بلیک لسٹ سے نکال دے۔ گلبدین حکمت یار کو امریکا کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ کی جانب سے انہیں بلیک لسٹ کیا گیا ہے۔ امن معاہدے کی رو سے حزب اسلامی کے رکن پورے ملک میں جہاں چاہیں آزادانہ زندگی گزار سکتے ہیں اور سیاسی سرگرمیوں نیز انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
حکمت یار افغانستان کے دو یا تین علاقوں میں اپنا دفتر قائم کرسکتے ہیں ور انہیں اپنی فوجی شاخ کو تحلیل کرنا ہوگا اور ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے افغانستان میں کام کرنا ہوگا۔ حکمت یار کی پارٹی کسی بھی دہشت گرد گروہ سے تعلقات نہیں رکھے گی اور ان کی سرگرمیوں کی حمایت بھی نہیں کرے گی۔ حکمت یار کی حزب اسلامی پارٹی گزشتہ پندرہ برس سے بیرونی افواج اور افغان فوج سے لڑتی آرہی تھی۔ افغانستان کی دوسری بڑی عسکری جماعت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو ملک میں امن عمل کے لئے کام کرنے والے صدر اشرف غنی کی بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ رواں ماہ ہی صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ حزب اسلامی کے ساتھ معاہدہ طے پانے والا ہے اور اس پیشرفت سے افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری شورش کے خاتمے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
گلبدین حکمت یار افغانستان کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں جبکہ ان کی قیادت میں حزب اسلامی نے 1977 سے 1992 تک روس کے خلاف جنگ میں بڑا سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ حکمت یار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی پارٹی نے 1992 سے 1996 تک جاری رہنے والی افغان خانہ جنگی کے دوران کابل میں بڑے پیمانے پر مخالفین کا قتل عام کیا تھا۔ جمعرات کو کابل میں اس معاہدے کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے جس میں شریک لوگ یہ نعرہ بلند کر رہے تھے کہ وہ نہ تو معاف کریں گے اور نہ ہی فراموش۔ حکمت یار کا شمار ان متنازعہ ترین شخصیات میں ہوتا ہے، جو طالبان کے ساتھ مل کر ابھی تک حکومت مخالف کارروائیوں میں مصروف رہے ہیں۔ انہیں کچھ حلقے ’کابل کے قصائی‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اپنی طالب علمی کے دور میں وہ ’بے پردہ‘ خواتین پر تیزاب پھینکنے کی وارداتوں میں ملوث رہے۔
دوسری طرف پاکستان نے افغان حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان حالیہ امن معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ایک جاری بیان میں خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان، افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور افغان عوام امن اور خوشحالی کے حق دار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغان حکومت اور حکمت یار کے درمیان حالیہ امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اس سے قبل امریکی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ واشنگٹن مذکورہ مذاکرات میں شریک نہیں ہے تاہم گلبدین سے ہونے والا امن معاہدہ خوش آئیند ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ" نے گزشتہ ماہ ہی یہ کہا تھا کہ "(گلبدین حکمت یار کی واپسی) سے افغانستان میں جرائم سے استثیٰ کی ایک روایت جنم لے سکتی ہے۔ دریں اثنا طالبان نے کہا ہے کہ مغربی ممالک کی مدد سے بننے والی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے وہ تیار نہیں ہیں اور ملک بھر میں کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔