الوقت - امریکا کے صدر باراک اوباما نے گیارہ ستمبر کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کو سعودی عرب کے خلاف مقدمہ چلانے والی کانگریس کی تجویز کو ویٹو کرکے اپنے ملک کی دوہری پالیسی کا ایک بار پھر واضح نمونہ پیش کیا ہے۔
گیارہ ستمبر کے واقعے کے سلسلے سعودی عرب کے ملوث ہونے کے بارے میں بہت زیادہ بحث ہونے اور 28 صفحات پر مشتمل مشہور رپورٹ کے فاش ہونے کے بعد، امریکی کانگریس نے گیارہ ستمبر کے واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو سعودی عرب کے خلاف شکایت کرنے کا حق دیا تھا لیکن امریکی صدر باراک اوباما نے اس حق کو ویٹو کر دیا اور اپنے ملک کی دوغلی پالیسی کا مظاہرہ کیا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اس قانون کو ویٹو کیا اور گیارہ ستمبر کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی کاروائی کے بارے میں ان کے مطالبات پر میں بھی یقین رکھتا ہوں لیکن ان افراد کو اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ یہ منصوبہ امریکی مفاد کو نقصان پہنچائے گا، ہو سکتا ہے کہ اس طرح کی شکایتیں امریکا کے خلاف دوسرے ممالک کی عدالتوں میں بھی چلایا جائے۔
کانگریس کی تجويز پر ویٹو کے بعد اوباما کی ممکنہ مذمت :
گرچہ سعودی عرب کے خلاف شکایت کرنے کے قانون پر اوباما کی جانب سے ویٹو کئے جانے پر اوباما کی بہت زیادہ مذمت ہوئی کیوں کہ مذکورہ قانون کی ڈیموکریٹ اور ریپبلکن دونوں ہی حمایت کر رہے تھے۔ اوباما کے اس اقدام سے دنیا کے مختلف واقعات کے بارے میں واشنگٹن کی دوغلی سیاست کا پتا چلتا ہے۔
11 ستمبر کی رپورٹ کو خفیہ رکھنے کے 14 سال مکمل :
گیارہ ستمبر کے واقعات میں سعودی عرب 19 شہریوں کے ملوث ہونے کے بارے میں خبروں اور رپورٹوں کےباوجود ، امریکا کی عدالتیں اور انصاف کے ادارے اس بارے میں پوری طرح خاموش ہیں اور انہوں نے ریاض کے خلاف کوئی بھی حکم جاری نہیں کیا۔ اس واقعے میں سعودی حکام کے ملوث ہونے پر مبنی کانگریس کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے باوجود، امریکی حکام کو ملک کے مالی مفاد اور ملک میں سعودی شہزادوں کی سرمایہ کاری کی حفاظت کی تشویش ہے۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی حکام نے اس رپورٹ کو چودہ برسوں تک مخفی رکھا اور اس کو منظر عام پر آنے سے روکا تھا۔
سعودی عرب سے معاوضہ لینے کا منصوبہ :
گزشتہ مہینے امریکی سینیٹ نے گیارہ ستمبر کے واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو سعودی عرب سے معاوضہ لینے کی تجویز منظور کی تھی اور اس کے بعد ایوان نمائندگان نے بھی اس تجویز کو اکثریت سے منظور کر دیا تھا۔ در ایں اثنا امریکی صدر باراک اوباما نے جنہوں نے کافی عرصے پہلے ہی کہنا تھاکہ وہ اس تجویز کو ویٹو کر دیں گے، اپنا کام کر دیا۔
کیا اوباما کے ویٹو کو پلٹا جا سکتا ہے؟
مذکورہ قانون کے موافق ایوان نمائندگان کے ارکان اسی وقت اوباما کے ویٹو کو ناکام کر سکتے ہیں جب ان کے پاس سینیٹ اور ایوان نمائندگان کا دو تہائی ووٹ ہو اور وہ اب بھی اس کی تلاش میں ہیں۔
11 ستمبر کے واقعے سے سعودی عرب کا دامن چھڑانا :
گیارہ ستمبر کے واقعے کو تقریبا پندرہ سال ہو رہے ہیں اور اس غیر انسانی واقعے میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس عرصے میں سعودی عرب کے حکام نے ہمیشہ سے اس بات کا انکار کیا اس کے شہری اس حملے میں ملوث تھے جبکہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن حکمراں سعودی خاندان کا بہت قریبی تھا اور اس حملے میں شامل 19 دہشت گردوں میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے دہشت گرادنہ واقع میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کا موضوع، یمن کے بے گناہ عوام کے خلاف جنگ، شام اور عراق میں مداخلت اور دہشت گرد گروہوں کی کھلی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت اور گزشتہ سال سانحہ منا میں سعودی عرب کے حکام کی بد انتظامی نے سعودی عرب کے اصلی چہرے کو سب پر عیاں کر دیا ہے اور یہی سبب ہے کہ چیچنیا کے دار الحکومت گروزنی میں اہل سنت و الجماعت کے اجلاس میں سعودی عرب کے دور رکھ کر واضح پیغام دیا گیا کہ سعودی عرب کا عالم اسلام اور سنی مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور وہ اسلام کی غلط شبیہ کو دنیا میں رائج کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔