الوقت - ڈیبکا فائل نے انکشاف کیا ہے کہ شام میں جنگ بندی کے موضوع پر امریکا کی وزارت خارجہ اور پنٹاگن میں کافی اختلافات پائے جاتے ہیں۔
شام کی فوج پر امریکی فوجیوں کے حملے کے بعد جس میں شام کی فوج کے 62 جوان جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے، 12 ستمبر کو امریکا اور روس کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ لندن سے شائع ہونے والی میگزین کا کہنا ہے کہ وہ دن اب کبھی بھی نہیں آئے جس دن کا دنیا انتظار کر رہی تھی کہ روس اور امریکا کی فوج دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کاروائی کرتی۔ شام کی فوج پر امریکی فوجیوں کی شدید بمباری کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ جہان پر امریکی فوجیوں نے حملہ کیا وہاں شام کی فوج اور داعش کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا، یہ گمان کیا جا رہا ہے کہ امریکا کی فوج، روس کی فوج کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون کرنے کو تیار نہیں ہے اور اسے اس کام کے لئے وائٹ ہاوس کے کمانڈ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے ویٹالی چورکین نے یہ بات دیرالزور میں شام کی فوج پر امریکی فوجیوں کے حملے کے بعد کہی، ڈیبکا فائل نامی ویب سائٹ نے جو صیہونی حکومت کے خفیہ حلقوں سے نزدیک ہے، اس واقعے کے پیش آنے سے پہلے ہی دعوی کیا تھاکہ شام میں جنگ بندی کے موضوع پر امریکا کی وزارت خارجہ اور وائٹ ہاوس کے پنٹاگن کے ساتھ شدید اختلافات ہیں۔
ویٹالی چورکین نے شام میں جنگ بندی کے نفاذ کے بارے میں اپنے شکو و شبہات کا اظہار ایسے وقت میں کیا کہ ان میں اور اقوام متحدہ میں امریکی نمائندے کے ساتھ شدید لفظی نوک چھوک ہوئی۔ ویٹالی چورکن نے امریکی سفارتکار کو عوام کو دھوکہ دینے والی اور ریاکار قرار دیا۔ یہ لفظی نوک چھوک ایسی حالت میں ہوئی کہ شام میں دہشت گردوں کے خلاف امریکا اور روس کے مشترکہ فوجی حملے کو شروع ہونے میں بہت ہی کم وقت باقی تھا۔ ان حالات کے مد نظر ویٹالی چورکین نے چبھتا ہوا سوال کیا کہ امریکا میں اختیار کس کے ہاتھ میں؟ وائٹ ہاوس کے یا پینٹاگن کے ؟
روس کی مسلح افواج کے ایک اعلی کمانڈر جنرل سرگئی رودسکوئی نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ یہ عظیم سانحہ جس میں اتنے افراد کی جان گئي، امریکیوں کی جانب سے حالات کا صحیح ادارک نہ ہونے اور شام میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں روس کے ساتھ صحیح ہماہنگی نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی ویب سائٹ ڈیبکا نے شام کی فوج پرامریکا کے فضائی حملے سے پہلے اپنی دو مہینہ پہلے کی بات کو دہراتے ہوئے دعوی کیا کہ روس کے ساتھ مشترکہ کاروائی کرے میں پینٹاگن کو کوئي دلچسپی نہیں ہے کیونکہ اسے اس بات کی تشویش ہے کہ مشترکہ کاروائی سے امریکا کی فوجی کاروائی کی خصوصہ روش روس کے ہاتھ لگ جائے گي اور اس طرح سے یہ طریقہ کار شام اور ایران جیسے تیسرے فریق تک بھی پہنچ جائے گی۔
ڈیبکا کا دعوی ہے کہ امریکا اور روس کے درمیان ہونے والی مفاہمت سے ایک ہفتہ پہلے امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ اس طرح کے اختلافات ایک طرف پینٹاگن اور امریکی وزارت خارجہ اور وائٹ ہاوس کے درمیان پائے جاتے ہیں۔
ڈیبکا نے اسی طرح یہ بھی دعوی کیا کہ امریکا کے وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا کہ وہ امریکی کانگریس کی جانب سے بنائے گئے قانون کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے اور اتفاق سے جزیرہ کریمیا کے روس میں ملحق ہونے کے بعد سے امریکی کانگریس نے روس کے ساتھ کسی بھی طرح کے فوجی رابطے پر پابندی عائد کر دی تھی۔