الوقت - امریکی صدر باراک اوباما کی حکومت کا زمانہ اس سال کے آخر میں ختم ہو جائے گا اور کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اوباما کے دور اقتدار میں امریکا اور صیہونی حکومت کی تعلقات نے بڑے ہی اتار چڑھاو طے کئی ہیں۔ اس کے باوجود گزشتہ روز یہ اعلان ہوا کہ امریکا کی حکومت، اسرائیل کو تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مدد کرنے والا ہے، یہ ایسا مرضوع جس کے بعض داخلی اور خارجی مسئلے پر توجہ کرنا ضروری ہے۔
امریکی میڈیا نے خبر دی ہے کہ حکومت اوباما نے امریکا کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی امداد اسرائیل کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئے اعداد و شمار کے مطابق تل ابیب تقریبا 38 ارب ڈالر کی فوجی مدد امریکا کے حاصل کرے گا۔ یہ ایسی حالت میں ہے گزشتہ دس سالہ امداد جو 2018 میں ختم ہوگي، 30 ارب ڈاکلر کی تھی۔
طے یہ ہے اس فوجی امداد سے متعلق سمجھوتے پر آج وایٹ ہاوس میں دستخط ہو جائے گی۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس مسئلے سے وابستہ مذاکرات، مہینوں سے بند دروازوں کے پیچھے جاری تھے۔ یعنی جب اس معاہدے کا اعلان کیا گیا، تو بتایا گیا امریکی صدر باراک اوباما اور صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے درمیان اس مسئلے کو لے کر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔
اسی تناظر میں مشرق وسطی کے امن منصوبے کے رئیس ڈیوڈ ماکوفسکی نے واشنگنٹن میں کہا کہ یہ علاقے کے لئے بہت اہم پیغام ہے۔ پیغام یہ ہے کہ کسی کو بھی ایران اور فلسطین کے بارے میں امریکا اور اسرائیل کے درمیان اختلافات سے خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اس تناظر میں امریکا اسرائیل کی طویل مدت سیکورٹی کی ضمانت کے اپنے وعدے پر کاربند ہے۔
امریکی چینل سی این این نے اپنی رپورٹ میں واشنگنٹن اور تل ابیب کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کو ایران سے براہ راست جوڑا اور لکھا کہ اسرائیلی حکام کا یہ نظریہ کے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تہران پر عائد پابندیوں کےہٹنے کی صورت میں تہران کو علاقے میں کوئی بڑا کھیل کھلینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ صیہونی حکومت کے اس بیان کو امریکا سے زیادہ سے زیادہ مراعات لینے اور اپنی فوجی امداد میں توسیع کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ عراق اور شام میں موجود نا امنی، اسرائیل کو فوجی مدد لینے کا دوسرا ثبوت ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی ایک اعلی رکن نیتا لووی نے ایک بیان میں کہا کہ اس نئے پیکج سے اسرائیل علاقے میں بد امنی اور عدم استحکام پھیلانے کے لئے بہترین حالت میں ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے شہریوں اور اپنی سرحدوں کی اچھی طرح حفاظت کر سکتا ہے۔ در ایں اثنا کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ نتن یاہو کی حکومت نے امریکی حکومت سے سب سے پہلے 4 کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کی فوجی مدد کی درخواست کی تھی جس کے بعد دونوں فریق 38 ارب ڈالر کی موجودہ فوج امداد پر تیار ہو گئے ۔
سیاسی اور اقتصادی مقاصد :
جیسا کہ سب کو پتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان یہ کوئی نیا سمجھوتہ نہیں ہے، اس سے پہلے بھی اسی طرح سے سمجھوتے متعدد بار ہو چکے ہیں۔ یہ مسئلہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس طرح کی فوج امداد کے پیچھے دونوں فریق کے لئے سیاسی مقاصد پوشیدہ ہیں۔ واشنگنٹن یہ مسئلہ بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ امریکا میں انتخابات ہونے والے ہیں، ابھی انتخابات کو دو مہینہ باقی ہیں اور اس طرح سے بیانات اور سمجھوتہ ہلیری کلنٹن کو انتخابات میں کامیابی سے دوچار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح نتن یاہو کے لئے بھی یہ مسئلہ بہت حیاتی اور اہم ہے۔ یہ سمجھوتہ ہر اس شک کو دو کر سکتا ہے جو ممکن ہے ملک کا آئندہ صدر اختیار کرے ۔ اس سمجھوتے کو حتمی شکل دینے سے ایک ہفتے پہلے نتن یاہو نے امریکا کا دورہ کیا۔