ہندوستان اور افغانستان ہمسایہ ملک نہيں ہیں لیکن دونوں کے درمیان بہت مضبوط اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے افغانستان کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو پہلا پڑوسی کا نام دیا اور افغان حکام کے ہندوستان کے دورے کو چاہے وہ افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی ہوں یا سابق صدر حامد کرزئی ہوں، ہمیشہ سے افغانیوں کے لئے اہم اور کامیاب رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں افغانستان اور ہندوستان کے درمیان جو چيز سب سے اہم ہے وہ نئی دہلی کی جانب سے کابل کی فوجی مدد ہے۔ علاقائی میڈیا پوری آب و تاب سے فوجی امداد کی خبروں کو کوریج دیتے ہیں جن کو ہندوستانی حکام، افغانیوں کو دینے کو تیار ہوئے۔ در ایں اثنا نئی دہلی میں افغانستان کے سفیر شیدا محمد عبدلی نے کہا کہ ایسی حالت میں کہ جب ہندوستان اور افغانستان کے درمیان نزدیکی فوجی تعاون سے پاکستان تشویش میں مبتلا ہے، ہندوستان نے افغانستان کو زیادہ سے زیادہ فوجی امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے جب ہندوستان نے افغانستان کی فوجی مدد کی ہے۔ نئی دہلی کے حکام نے گزشتہ 15 برسوں کے دوران دو ارب سے ڈالر سے زیادہ کی فوجی مدد افغانستان کی کر چکے ہیں اور 2015 میں پہلی بار افغانستان کو تین میل-25 روسی ہیلی کاپٹر دیئے۔ یہ مدد اشرف غنی کی حکومت کے زمانے میں دی گئی ہے۔ چوتھا ہیلی کاپٹر بھی جلد ہی آگلے ہفتوں کے دوران افغان فوج کے سربراہ جنرل قدم شاہ شہیم کے ہندوستان کے دورے کے دوران افغان حکام کے حوالے کر دیا جائے گا۔ افغانستان کو ہندوستان کی جانب سے دی جا رہی فوجی مدد ایسی حالت میں ہے کہ گزشتہ دو مہینوں کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات بہت زیادہ کشیدہ رہے ہیں۔ در حقیقت پہلی نظر میں ہندوستان کی جانب سے افغانستان کی فوجی مدد کو نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان پائی جا رہی کشیدگی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے ہندوستان اور افغانستان دونوں ہی اپنے تعلقات سے پاکستان کو چڑھا رہے ہیں تاہم پاکستان سے کشیدگی کو کابل اور نئی دہلی کے درمیان نزدیکی کے تناظر میں ہی نہیں دیکھا جا سکتا۔ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو چار امور میں دیکھا جا سکتا ہے :
جیسا کہ اشارہ کیا گیا، سب سے پہلی اور اہم دلیل جس نے ہندوستانی حکام کی افغانستان کی فوجی مدد کرنے ترغیب دلائی ہے وہ اختلافات اور بحران ہے جس کا سامنا افغانستان اور ہندوستانی حکام پاکستان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ہندوستان نے افغانستان کی فوجی مدد کرکے اپنے قدیمی حریف پاکستان کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ کابل کی مرکزیی حکومت کی مدد کرکے اور اپنی موجودگی کے ذریعے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو حل کرنے بلکہ پاکستان کی شمالی سرحدوں کے مسائل پر بھی کنٹرول کر سکتا ہے۔
دوسری طرف کابل کی مرکزی حکومت کی فوجی طاقت، اسلام آباد سے مقابلے کے ہدف سے دیکھی جا رہی ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے افغانستان کی حکومت کو کمزور کرنے اور طالبان سمیت حکومت مخالف گروہوں کو مضبوط کرنے کے درپئے رہا ہے۔
ہندوستان کی طرف سے افغانستان کی فوجی مدد کا دوسرا مقصد، علاقے میں اس ملک کی جانب سے بڑا کھیل کھیلنا ہے۔ 20 عظیم صنعتی ممالک میں رکنیت کی حیثیت سے ہندوستان کو علاقے میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان بھی ہندوستان کے لئے مطلوبہ ہدف ہے اور مرکزی ایشیا تک پہنچنے کے لئے اہم دروازہ بھی ہے۔
افغانستان میں ہندوستان کی موجودگی کے لئے کم چیلنج ہیں اور خارجہ پالیسی کے لئے کم خرچہ بھی آئے گا۔ گرچہ افغانستان میں ہندوستان کی موجود سے ممکن ہے کہ پاکستان کو گہری تشویش ہو لیکن ایسا محسوس نہيں ہوتا کہ یہ تشویش، ہندوستان کے مقابل میں پاکستان کی حالت کے مد نظر نئی دہلی کے لئے زيادہ تشویش کی بات نہ ہو۔
بہرحال ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی نے نئی دہلی کے لئے افغانستان میں موجودگی کا زیادہ راستہ ہموار کیا ہے اور ہی سبب ہے کہ پاکستان حکام، افغانستان کے حوالے سے بے اعتمادی میں مبتلا ہیں اور ہندوستان کی افغانستان میں موجودگی پر اپنے گہری تشویش سے آگاہ کر چکے ہیں۔