الوقت - 19 ویں صدی میں زیادہ تر اور 20ویں صدی کے شروعات میں برطانیہ نے مشرق وسطی کے مسائل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1956 میں مشرقی وسطی میں برطانوی استعمار کا خاتمہ ہو گیا۔ برطانیہ (فرانس اور اسرائیل کے ساتھ) جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے کمزور پڑ گئے تھے، سویز نہر پر کنٹرول کرنے کے اپنے ارادے سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔
لندن نے 1967 میں اپنی کالونی عدن کو اور بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات اور عمان جیسے اپنے شیخ نشین علاقوں یا رجواڑوں کو 70 کے عشرے میں حوالے کر دیا اور اس طرح سے مغرب کی سب سے بڑی طاقت کی حیثیت سے امریکا نے علاقے میں برطانیہ کی جگہ لے لی۔ ان سب کے باوجود برطانوی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ سرنگونی کا عمل برعکس رہا ہے اور علاقے خاص طور پر خلیج فارس کے علاقے میں برطانیہ کی تجارت میں پہلے سے زیادہ اثر رہا ہے۔ خلیج فار س میں ایک یورپی ملک کی حیثیت سے برطانیہ کے سب سے زیادہ تجارتی، سیکورٹی اور سیاسی اثر و رسوخ ہیں اور لندن کی بھی یہی خواہش ہے یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے۔
برطانیہ کے مستقل مفاد
مشرق وسطی میں برطانوی مفاد تجارت اور سیکورٹی سے عبارت ہے تاہم سیکورٹی چیلنج کو ترجیح حاصل ہے۔ برطانوی حکومت نے 2010 کی سیکورٹی اور دفاعی حکمت عملی کے جایزے کے تحت اعلان کیا کہ غیر ملکی اسلامی دہشت گردی، برطانیہ کے قومی مفاد کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہے۔ برطانوی حکومت مشرق وسطی کے بحران میں اپنے شہریوں کے ملوث ہونے اور ان کی وطن واپسی کو لے کر بہت تشویش میں مبتلا ہے۔
برطانیہ کے لئے مشرق وسطی کی اقتصادی اہمیت ، یورپ، ایشیا خاص طور پر چين اور امریکا کے بازاروں سے بہت کم ہے۔ اس کے باوجود حالیہ برسوں میں مشرق وسطی خاص طور پر خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک اور متحدہ عرب امارات کی جانب برطانوں ساز و سامان کی برآمدات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ اور عرب ممالک کی تجارت میں 2012 کی بہ نسبت 2013 میں تقریبا 11 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مشرقی وسطی اور شمالی افریقہ، برطانیہ کے فوجی سازو سامان کی سب سے بہترین اور بڑی مارکٹ سمجھی جاتی ہے۔ ان علاقوں کے ممالک نے 2013 میں برطانیہ سے سب سے زیادہ فوجی ساز وسامان کی خریداری کا معاہدہ کیا، گرچہ اعداد وشمار میں اتار چڑھاو ہے لیکن برطانیہ کی وزارت صنعت و تجارت کے مطابق 2013 میں عالمی بازار میں دفاعی ساز و سامان کی برآمدات میں اس ملک کا حصہ 22 فیصد یعنی 9.8 ارب پاونڈ تھا۔
خلیج فارس استثنائی :
مشرق وسطی میں بہار عری کی آڑ میں حکومتوں کی تبدیلی کا برطانوی دیرینہ خواب زیادہ پورا نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر 2011 میں لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر قذافی کی فوج سے لیبیا کو آزاد کرانے کی کاروائی میں نیٹو کے فضائی حملے میں شرکت کے لئے متحدہ عرب امارات کی تعریف کی تاہم اس کے فورا بعد 2012 میں برطانوی حکومت نے امارات میں حکومت کی جانب سے شہری کارکنوں کی سرکوبی کو نظر انداز کر دیا۔ برطانوں پارلیمنٹ کے کنزرویٹو پارٹی کے کچھ ارکان پارلیمنٹ تو اتنا آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات میں بلاوجہ شہریوں کی گرفتاری کی مذمت کرنے والی تجویز کے خلاف ووٹنگ کی۔
بہرحال مشرقی وسطی میں آنے والے عشروں میں برطانیہ کی ترجیحات میں تبدیلی آئے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فوجی مداخلت کے ذریعہ حکومت کی تبدیلی کی کوشش یا باغیوں کو ہتھیاروں سے بھر کر حکومت کرانے کا عمل پوری طرح ناکام ہو جائے گا، جیسا کہ لیبیا اور عراق میں ہوا اور اس سے علاقے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہوگا۔ اس لئے لندن حکومت کی تبدیلی کے مسئلے کو بہت ہی محتاطانہ طریقے سے آگے بڑھا رہا ہے۔